1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغانستان میں جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں‘

1 دسمبر 2020

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اپنے افغان مشن پر نظر ثانی پر مجبور ہو گیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے تعاون کے بغیر افغانستان میں جرمن فوجیوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں۔

US-Soldaten in Afghanistan
تصویر: Brian Harris/Planet Pix/ZUMA/picture alliance

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں اپنے تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔ نیٹو کی یہ اہم ویڈیو کانفرنس منگل کے دن ہی ہو رہی ہے، جس میں تیس رکن ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے۔

عنقریب سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ری پبلکن صدر ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ وسط جنوری تک افغانستان میں متعین امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے کم کر کے ڈھائی ہزار کر دی جائے۔

یہ بھی پڑھیے: طالبان۔افغان حکومت معاہدہ لفظوں میں الجھ گیا

افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کی مجموعی تعداد تقریباﹰ گیارہ ہزار بنتی ہے۔ ان فوجیوں کا تعلق یورپی اور دیگر نیٹو رکن ممالک سے ہے۔ تاہم یہ عسکری اتحاد ایئر سپورٹ اور انتظامی معاملات پر امریکی فوجیوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ نے اسی تناظر میں کہا کہ یہ انتہائی اہم ہے کہ افغانستان میں متعین جرمن فوجیوں کی سلامتی کی خاطر امریکی افواج کی ایک اہم تعداد افغانستان میں ہی تعینات رہے۔ جرمن براڈ کاسٹر زیڈ ڈی ایف سے گفتگو میں ہائیکو ماس نے کہا، ''بصورت دیگر ہم جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔‘‘

نیٹو کی اس دو روزہ ورچوئل کانفرنس میں متوقع طور پر افغان مشن پر توجہ مرکوز رہے گی۔ اس کے علاوہ مغربی دفاعی اتحاد میں اصلاحات کے منصوبوں پر بھی گفتگو کی جائے گی۔ اس کانفرنس میں نیٹو کی چائنہ پالیسی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے تعاون کے بغیر افغانستان میں جرمن فوجیوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/T.A. Clary

نیٹو اصلاحات کے منصوبہ جات

موجودہ عالمی حالات میں نیٹو عسکری اتحاد کے تاحال اہم اور متعلقہ ہونے سے متعلق ایک سو اڑتیس منصوبے زیر بحث ہیں۔ ماہرین کی ایک ٹیم نے ان منصوبہ جات کو تیار کیا ہے۔ ان میں نیٹو کے سیاسی کردار کو مضبوط بنانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ مشترکہ فوجی آپریشنز کو کچھ رکن ممالک کی طرف سے ویٹو کرنے کے اختیارات کو بھی محدود بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیے:’ہم 20 سالہ جنگ 20 دن میں ختم نہیں کرسکتے‘: اشرف غنی

جرمن وزیر خارجہ ماس نے ان منصوبہ جات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'یہ درست وقت پر تجویز‘ کیے گئے ہیں۔ زیڈ ڈی ایف سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ''ہمیں اپنے مفادات کو زیادہ یقینی بنانا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ اس سلسلے میں یورپ اپنے لیے اور ہمسایہ ممالک کے لیے فوری طور پر کیا کر سکتا ہے؟‘‘

انخلا درست وقت پر ہونا چاہیے

جرمن وزیر خارجہ ماس کے مطابق 'جرمن افواج افغانستان میں ہمیشہ کے لیے نہ ہی متعین رہ سکتی ہیں اور نا ہی رہنا چاہییں‘۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس شورش زدہ ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلا 'مربوط‘ طریقے سے ہونا چاہیے، جس کے لیے افغانستان میں طالبان اور حکومت کے مابین امن مذاکرات انتہائی اہم ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:امریکا کا افغانستان اورعراق میں فوجیوں کی تعداد کم کرنے کی تصدیق

طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ امن ڈیل کے تحت افغانستان سے امریکی اور دیگر ممالک کی افواج یکم مئی تک واپس بلا لی جائیں گی تاہم اس سے قبل یہ دیکھنا ہو گا کہ اس پیشرفت کے لیے سکیورٹی حالات موافق ہوں۔

ہائیکو ماس نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ آئندہ برس بیس جنوری کو ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکی انتظامیہ سے بہتر رابطہ کاری ممکن ہو سکے گی۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں