’افغانستان میں جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں‘
1 دسمبر 2020
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اپنے افغان مشن پر نظر ثانی پر مجبور ہو گیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے تعاون کے بغیر افغانستان میں جرمن فوجیوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں۔
اشتہار
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں اپنے تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔ نیٹو کی یہ اہم ویڈیو کانفرنس منگل کے دن ہی ہو رہی ہے، جس میں تیس رکن ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے۔
عنقریب سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ری پبلکن صدر ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ وسط جنوری تک افغانستان میں متعین امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے کم کر کے ڈھائی ہزار کر دی جائے۔
افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کی مجموعی تعداد تقریباﹰ گیارہ ہزار بنتی ہے۔ ان فوجیوں کا تعلق یورپی اور دیگر نیٹو رکن ممالک سے ہے۔ تاہم یہ عسکری اتحاد ایئر سپورٹ اور انتظامی معاملات پر امریکی فوجیوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے اسی تناظر میں کہا کہ یہ انتہائی اہم ہے کہ افغانستان میں متعین جرمن فوجیوں کی سلامتی کی خاطر امریکی افواج کی ایک اہم تعداد افغانستان میں ہی تعینات رہے۔ جرمن براڈ کاسٹر زیڈ ڈی ایف سے گفتگو میں ہائیکو ماس نے کہا، ''بصورت دیگر ہم جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔‘‘
نیٹو کی اس دو روزہ ورچوئل کانفرنس میں متوقع طور پر افغان مشن پر توجہ مرکوز رہے گی۔ اس کے علاوہ مغربی دفاعی اتحاد میں اصلاحات کے منصوبوں پر بھی گفتگو کی جائے گی۔ اس کانفرنس میں نیٹو کی چائنہ پالیسی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
نیٹو اصلاحات کے منصوبہ جات
موجودہ عالمی حالات میں نیٹو عسکری اتحاد کے تاحال اہم اور متعلقہ ہونے سے متعلق ایک سو اڑتیس منصوبے زیر بحث ہیں۔ ماہرین کی ایک ٹیم نے ان منصوبہ جات کو تیار کیا ہے۔ ان میں نیٹو کے سیاسی کردار کو مضبوط بنانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ مشترکہ فوجی آپریشنز کو کچھ رکن ممالک کی طرف سے ویٹو کرنے کے اختیارات کو بھی محدود بنایا جائے۔
جرمن وزیر خارجہ ماس نے ان منصوبہ جات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'یہ درست وقت پر تجویز‘ کیے گئے ہیں۔ زیڈ ڈی ایف سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ''ہمیں اپنے مفادات کو زیادہ یقینی بنانا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ اس سلسلے میں یورپ اپنے لیے اور ہمسایہ ممالک کے لیے فوری طور پر کیا کر سکتا ہے؟‘‘
انخلا درست وقت پر ہونا چاہیے
جرمن وزیر خارجہ ماس کے مطابق 'جرمن افواج افغانستان میں ہمیشہ کے لیے نہ ہی متعین رہ سکتی ہیں اور نا ہی رہنا چاہییں‘۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس شورش زدہ ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلا 'مربوط‘ طریقے سے ہونا چاہیے، جس کے لیے افغانستان میں طالبان اور حکومت کے مابین امن مذاکرات انتہائی اہم ہیں۔
طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ امن ڈیل کے تحت افغانستان سے امریکی اور دیگر ممالک کی افواج یکم مئی تک واپس بلا لی جائیں گی تاہم اس سے قبل یہ دیکھنا ہو گا کہ اس پیشرفت کے لیے سکیورٹی حالات موافق ہوں۔
ہائیکو ماس نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ آئندہ برس بیس جنوری کو ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکی انتظامیہ سے بہتر رابطہ کاری ممکن ہو سکے گی۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔