1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری، اقوام متحدہ

23 جنوری 2024

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے خلاف طالبان اپنی سختیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مرد و خواتین پر اسلامی شریعت کو مکمل طور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

Afghanistan | Fotostrecke "Suche nach einem Zuhause"
صوبہ پکتیا میں دینی امور کی وزارت 'نہی عن المنکر' نے گزشتہ دسمبر سے مرد سرپرستوں کے بغیر خواتین کی صحت کے مراکز تک بھی رسائی کو روک دیا ہےتصویر: Ebrahim NorooziAP/picture alliance

پیر کے روز شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور حال یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون غیر شادی شدہ ہو، یا پھر ان کے ساتھ کوئی مرد سرپرست نہ ہو، تو کام، سفر اور صحت کی دیکھ بھال تک ان کی رسائی کو پوری طرح سے محدود کیا جا رہا ہے۔

'ہر دو گھنٹے بعد ایک ہلاکت': افغان خواتین کے لیے زچگی زندگی اور موت کی جنگ

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اکتوبر سے دسمبر کے دوران کی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان حکمرانوں کی جانب سے افغان خواتین کی عوامی زندگی تک رسائی کے خلاف کریک ڈاؤن پوری طرح سے جاری ہے۔

دنیا افغانستان میں خواتین کے خلاف صنفی تعصب تسلیم کرے، ملالہ

افغان خواتین پر مزید پابندیاں

افغانستان میں مرد کی سرپرستی سے متعلق کوئی باضابطہ قوانین موجود نہیں ہیں، تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ خواتین کسی ایسے مرد کے بغیر باہر گھوم پھر نہیں سکتیں اور نہ ہی ایک خاص فاصلے تک سفر کر سکتی ہیں، جس سے ان کا خونی رشتہ نہ ہو یا پھر وہ شادی کے ذریعے رشتے میں نہ ہوں۔

طالبان ملک میں انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کریں، اقوام متحدہ

تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں صرف اس لیے ان تین خواتین ہیلتھ ورکرز کو حراست میں لے لیا گیا تھا، کیونکہ وہ مرد سرپرست کے بغیر کام پر جا رہی تھیں۔

پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان خواتین کو صرف اس شرط پر رہا کیا گیا، جب ان کے اہل خانہ نے تحریری طور پر اس ضمانت پر دستخط کیے کہ خواتین اس فعل کو دوبارہ نہیں دہرائیں گی۔

سندھ میں افغان خواتین اور بچوں کی گرفتاریاں، انسانی حقوق کے کارکنوں کا الزام

جنوب مشرقی افغانستان کے صوبہ پکتیا میں دینی امور کی وزارت 'نہی عن المنکر' نے گزشتہ دسمبر سے مرد سرپرستوں کے بغیر خواتین کی صحت کے مراکز تک بھی رسائی کو روک دیا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں ہی ڈریس کوڈ پر عمل نہ کرنے والی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کے تحت پہلی بار ایک خاتون کو ''شرعی حجاب'' نہ پہننے پر گرفتار کیا گیاتصویر: Adek Berry/AFP/Getty Images

خواتین پر تعلیمی پابندیاں

سن 2021 میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو اس کے فوری بعد ہی طالبان نے خواتین کو نشانہ بنانے کے لیے کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ

رواں ماہ کے اوائل میں ہی، طالبان حکومت نے کہا تھا کہ سن 2022 میں خواتین کے لیے جو ڈریس کوڈ نافذ کیا گیا تھا، اس پر عمل نہ کرنے والی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کے تحت پہلی بار ایک خاتون کو ''شرعی حجاب'' نہ پہننے پر گرفتار کیا گیا۔

طالبان نے درجنوں خواتین اسٹوڈنٹس کو دبئی جانے سے روک دیا

طالبان نے افغان لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے سکول جانے سے بھی روک دیا اور خواتین کو مقامی ملازمتوں اور غیر سرکاری تنظیموں میں شامل ہونے سے بھی منع کر دیا ہے۔ انہوں نے بیوٹی سیلون بند کرنے کے ساتھ ہی خواتین کے جم اور پارکوں میں جانے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ پر طالبان کا ردعمل

خواتین کے حقوق کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے بہت سے ممالک نے طالبان کی ان حرکتوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور دنیا کے بیشتر ممالک نے ان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم بھی نہیں کیا ہے۔

افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ پر اپنے رد عمل میں کہا کہ یہ رپورٹ زیادہ تر غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے مشن پر اسلامی قانون یا شریعت کو نظر انداز یا پھر اس پر تنقید کرنے کا الزام بھی  لگایا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے پاس اقتدار ہے اور اس کو چاہیے کہ وہ، ''مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں طور پر شریعت کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کرے۔''

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

طالبان کے دو سالہ دورِ اقتدار میں خواتین کو درپیش مسائل

02:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں