1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں خواتین کے لیے اب یونیورسٹی کے بھی دروازے بند

21 دسمبر 2022

طالبان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ اعلان تک خواتین کے لیے یونیورسٹی کی کلاسز میں شرکت کو معطل کیا جا رہا ہے۔ اس طرح سے طالبان حکومت نے ایک بار پھر سے خواتین کے لیے تعلیم تک رسائی کو مزید محدود کر دیا ہے۔

Afghanistan Frauen-Bibliothek in Kabul
تصویر: Ali Khara/REUTERS

افغانستان میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق وزارت نے منگل کے روز بتایا کہ طالبات کے لیے یونیورسٹیوں کو فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ طالبان حکومت نے اپنی ایک اہم میٹنگ کے بعد اس فیصلے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس حکم پر فوری طور پر عمل کیا جائے۔

طالبان دہشتگردی کے خلاف ’توقعات‘ پر پورے نہیں اترے، پاکستان

اس سلسلے میں وزارت تعلیم کی طرف سے تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو جو مکتوب جاری کیا گیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ ''آپ سب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آئندہ اعلان تک، خواتین کی تعلیم کو معطل کرنے کا جو حکم صادر کیا گیا ہے، اس پر فوری طور پر عمل درآمد کریں۔''

افغانستان: طالبان نے تفریحی پارکوں میں بھی خواتین کے جانے پر پابندی لگا دی

وزارت تعلیم کے ترجمان نے بھی اس خط کو اپنے ایک ٹویٹ پیغام کے ساتھ پوسٹ کیا ہے۔ اس پابندی کا مطلب یہ ہوا کہ اب ملک میں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں اور خواتین کو کلاس روم سے باہر کر دیا گیا ہے۔

چند ماہ قبل ہی افغانستان کی ہزاروں خواتین نے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ٹیسٹ دیا تھا، جن میں سے بہت سی اساتذہ یا نرس بننے کی تمنا رکھتی تھیں۔ اعلیٰ تعلیم پر یہ پابندی یونیورسٹی میں داخلے کے امتحانات دینے کے تین ماہ سے بھی کم وقت کے بعد لگائی گئی ہے۔

اگست سن 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک خواتین کے لیے یونیورسٹیاں اس شرط پر کھلی رہی تھیں کہ وہ مرد طلبہ سے الگ کلاسوں میں شرکت کریں۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طالبان کی زیر قیادت حکومت نے ان مضامین کی بھی درجہ بندی کی ہے، جن کا یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم خواتین اپنے لیے منتخب کر سکتی ہیں۔

امریکہ کی جانب سے مذمت

امریکہ میں قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''افغان خواتین کو یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے طالبان کے ناقابلِ دفاع فیصلے کی امریکہ مذمت کرتا ہے۔''

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ''طالبان کے اس ناقابل قبول موقف کے اہم نتائج برآمد ہوں گے اور یہ فیصلہ طالبان کو عالمی برادری سے مزید دور کر دے گا۔''

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے منصوبے پر ابھی کام کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی وقت نہیں مقرر کیا ہے۔ البتہ پرائمری اسکول تمام بچوں کے لیے کھلے ہیںتصویر: Wahil Kohsar/Getty Images

طالبان کا یہ اعلان ایسے وقت آیا، جب نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والے ایک اجلاس میں افغانستان کی صورت حال پر بات چیت جاری تھی۔

اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا، ''طالبان اس وقت تک بین الاقوامی برادری کا ایک جائز رکن بننے کی توقع نہیں کر سکتے، جب تک کہ وہ تمام افغانوں کے حقوق، خاص طور پر انسانی حقوق اور خواتین اور لڑکیوں کی بنیادی آزادی کا احترام نہیں کرتے۔''

طالبات کے لیے سیکنڈری اسکول بند

اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے سب سے پہلے ملک بھر میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں پر پابندی لگا دی تھی۔ رواں برس ستمبر میں طالبات نے بندش کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا، تاہم ابھی تک اسکول میں وہ اپنی واپسی کی مہم میں کامیاب نہیں ہو پائی ہیں۔ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے کے لیے طالبان پر بین الاقوامی دباؤ بھی اب تک ناکام رہا ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے منصوبے پر ابھی کام کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی وقت نہیں مقرر کیا ہے۔ البتہ پرائمری اسکول تمام بچوں کے لیے کھلے ہیں۔

طالبان نے دو امریکی قیدیوں کو رہا کر دیا

ادھر ایک مختلف پیش رفت میں طالبان نے افغانستان میں قید دو امریکیوں کو رہا کر دیا ہے، جس کی امریکی حکام نے تصدیق کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا، '' ہم سمجھتے ہیں کہ یہ طالبان کی جانب سے جذبہ خیر سگالی ہے۔ یہ قیدیوں کے تبادلے کا حصہ نہیں تھا۔ ان کی رہائی میں پیسوں کا لین دین بھی نہیں شامل تھا۔''

تاہم انہوں نے قطر پہنچنے والے ان دو امریکیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ البتہ سی این این کے مطابق ان میں سے ایک فلمساز آئیور شیرر ہیں، جنہیں اگست کے وسط میں دارالحکومت کابل میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا۔

اس وقت مبینہ طور پر وہ اسی علاقے میں تھے، جہاں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ ہلاک ہو گئے تھے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

طالبان کے اقتدار میں ایک نوجوان خاتون کی زندگی

02:03

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں