افغانستان میں خود کش حملہ، کم از کم بیس افراد ہلاک
25 دسمبر 2011کابل سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق افغان وزارت داخلہ نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ یہ خود کش حملہ اس وقت کیا گیا جب بہت سے افراد شمالی صوبے تخار کے مرکزی شہر تالقان میں ایک مقامی شخصیت جنازے کے جلوس میں شریک تھے۔
اس حملے میں مجموعی طور پر بیس افراد ہلاک اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے جبکہ مرنے والوں میں ایک افغان رکن پارلیمان بھی شامل ہے، جس کا نام عبدالمطلب بتایا گیا ہے۔ خبر ایجنسی اے پی کے مطابق صوبے تخار میں عسکریت پسندوں کی طرف سے زیادہ خود کش حملے نہیں کیے جاتے اور ملکی دارالحکومت کابل سے شمال مشرق کی طرف قریب 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ خطہ ملک کے مقابلتاﹰ سب سے پر امن علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔
اس حملے کے حوالے سے تخار ہی سے افغان نیشنل پارلیمان کے ایک اور رکن سید اکرام الدین معصومی نے ٹیلی فون پر خبر ایجنسی اے پی کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس بم حملے میں خود کش حملہ آور جن معصوم شہریوں کی موت کی وجہ بنا، ان میں معصومی کے ساتھی رکن پارلیمان عبدالمطلب بھی شامل تھے۔
اس ہلاکت خیز خود کش حملے میں بیس کے قریب اموات کی تصدیق تخار کے صوبائی گورنر عبدالجبار تقویٰ نے بھی کر دی ہے۔ تقویٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس بم حملے کا ایک ہدف وہ خود بھی تھے تاہم وہ چند ذاتی وجوہات کی بنا پر اس جنازے میں شریک نہ ہو سکے تھے۔
تخار میں پولیس کے صوبائی سربراہ جنرل خیر محمد تیمور نے بھی اس حملے میں ’کافی زیادہ‘ جانی نقصان کا ذکر کیا ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے تخار میں آج کے خود کش حملے کی بہت سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ افغانستان کے دشمنوں نے کیا ہے، جو داخلی سلامتی کے درپے ہیں اور افغانستان کو مستحکم ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔
اسی دوران کابل میں وزارت داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ افغان سکیورٹی دستوں نے مغربی دفاعی اتحاد کی فوجوں کے ساتھ مل کر ملک کے مختلف حصوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں کم ازکم 30 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عابد حسین