افغانستان میں سیلابوں سے ہزارہا بچے متاثر
8 جون 2024اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے شمالی اور مغربی علاقوں میں حالیہ سیلابوں سے متاثرہ ہزاروں بچوں کو فوری مدد کی ضرروت ہے۔
اس عالمی ادارے نے کہا ہے کہ ہزاروں بچوں کو ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا۔ اس ادارے نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ افغان سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے فوری ایکشن لیا جائے۔
افغانستان میں اس مرتبہ غیر معمولی طور پر بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے ملک کے متعدد علاقوں میں فصلیں تباہ ہو گئی ہیں جبکہ املاک اور مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اقوام متحدہ کی فوڈ ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب سے ہونے والی اس تباہی کے بعد زیادہ تر افغان باشندے معاشی طور پر کچھ کمانے کے قابل ہی نہیں رہیں گے جبکہ اس وسطی ایشیائی ملک میں خوراک کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
یونیسیف نے کہا ہے کہ شدید موسمی تغیرات کی وجہ سے اس سال ایسے افغان علاقوں میں بھی سیلابوں نے تباہی مچائی، جو گزشتہ سال خشک سالی کا شکار رہے تھے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق مئی کے مہینے میں افغانستان میں غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں سے ہونے والی تباہی میں کم از کم تین سو افغان شہری مارے گئے جبکہ ہزاروں مکانات منہدم ہو گئے۔ یہ تباہی زیادہ تر شمالی صوبے بغلان میں ہوئی۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہ کاری کے باعث مقامی لوگوں کے پاس نہ تو سر چھپانے کے لیے کوئی چھت بچی ہے اور نہ ہی کاشت کاری کے لیے زمین۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ان لوگوں کے روزگار کے تمام اسباب برباد ہو چکے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیاں کیا رنگ لائیں گی؟
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے افغانستان کے لیے مندوب ڈاکٹر تاج الدین اویولی نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو افغانستان کے لیے اپنی امدادی کوششوں میں دوگنا اضافہ کر دینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے حوالے سے بھی سرمایہ کاری کی جانا چاہیے تاکہ موسمی تغیرات کے بالخصوص بچوں پر اثرات کم پڑیں۔
تاج الدین کے بقول یونیسیف اور دیگر امدادی اداروں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاری کرنا ہو گی۔
چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈکس میں افغانستان کا نمبر پندرہواں ہے، اس انڈکس میں مجموعی طور پر 163 ممالک شامل ہیں۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی سے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی سیو دا چلڈرن نامی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم نے کہا تھا کہ سن 2024 کے دوران پینسٹھ لاکھ افغان بچوں کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے بحرانی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس ادارے کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ہر دس میں سے تین افغان بچوں کو خوراک کے بحران کا سامنا کرنے پڑے گا، جس کی وجوہات میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریاں تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی پاکستان اور ایران سے وطن لوٹنے والے مہاجرین بھی اس صورتحال کا سبب بنیں گے۔ گزشتہ برس ستمبر سے اب تک کم از کم 557,000 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔
ع ب / ک م (اے پی، اے ایف پی)