افغانستان میں شدید بارشیں اور سیلاب، تین سو سے زائد ہلاکتیں
11 مئی 2024
افغانستان کے متعدد صوبوں میں شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام کے مطابق تین سو سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ کئی صوبوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
اشتہار
افغان دارالحکومت کابل سے ہفتہ 11 مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے، جو ہندو کش کی اس تباہ حال ریاست کے وسیع تر علاقوں میں اپنی امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، بتایا کہ پہلے شدید بارشوں اور پھر اچانک آنے والے سیلاب سے متاثرہ کئی صوبوں میں حکام نے ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے جبکہ زخمیوں کی طبی مدد کرنے کا کام بھی جاری ہے۔
مسلسل شدید بارشوں کے بعد افغانستان کے کئی دریا نہ صرف اپنے کناروں سے باہر نکل آئے بلکہ بہت سے پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقوں میں مٹی کے تودے گرنے کے نتیجے میں بھی بہت سے دیہات متاثر ہوئے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے نامہ نگاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ کل جمعے کو آنے والے سیلاب کے بعد آج ہفتے کی صبح بہت سے صوبوں کے بیسیوں دیہات میں امدادی کارکن متاثرین کی مدد جاری رکھے ہوئے تھے۔
شمالی صوبہ بغلان سب سے زیادہ متاثر
بارشوں اور سیلاب سے ہزاروں کی تعداد میں پختہ اور کچی عمارات اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔ حکومت کی طرف سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے لیے ریسکیو ٹیمیں بھیجی جا چکی ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے کئی رہائشی علاقوں کا ملک کے باقی ماندہ حصوں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔
اشتہار
کابل کے علاوہ افغان شہر لقائی سے آمدہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شمالی صوبے بغلان کو ان بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جہاں انسانی ہلاکتوں کی تعداد 300 سے زائد اور تباہ شدہ گھروں کی تعداد ہزاروں میں بتائی گئی ہے۔
عالمی خوراک پروگرام کی افغانستان میں کمیونیکیشن آفیسر نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق صرف بغلان صوبے میں ہی تاحال 311 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 2,011 مکانات پوری طرح تباہ ہو گئے جبکہ 2,800 گھروں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔‘‘
ہلاکتوں کے متضاد اعداد و شمار
افغانستان میں مسلسل شدید بارشوں اور سیلاب سے متعلق مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات میں ہلاکتوں کی تعداد بھی مختلف اور قدرے متضاد بتائی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کم از کم 311 افراد صرف صوبے بغلان میں ہی ہلاک ہو گئے۔
اس کے علاوہ ملکی حکومت اور امدادی تنظیموں کی طرف سے بتائی گئی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد بھی مختلف تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق صوبے بغلان میں 218 افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے برعکس کابل میں ملکی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع نے بتایا کہ آخری اطلاعات ملنے تک بغلان میں 131 ہلاکتیں ہو چکی تھیں، تاہم مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ اپنی جگہ ہے۔ قانع کے مطابق، ''بہت سے شہری ابھی تک لاپتہ ہیں۔‘‘
بغلان کے علاوہ دیگر افغان صوبوں سے بھی جانی اور مادی نقصانات کی اطلاعات ملی ہیں۔
شمالی افغان صوبے تخار میں بارشوں کے بعد لینڈ سلائیڈنگ اور سیلانگ کے نتیجے میں 20 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ تخار کے ہمسایہ صوبے بدخشاں میں بھی کم ازکم دو افراد ہلاک ہو گئے۔
اس کے علاوہ اس قدرتی آفت نے مغربی صوبوں غور اور ہرات کو بھی بری طرح متاثر کیا۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''سیلاب کی صورت میں آنے والی قدرت آفت سینکڑوں افغان شہریوں کی جان لے چکی ہے۔‘‘
م م / ع ت (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
نائجیریا سے پاکستان تک، عالمی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریاں
سیلاب جیسے تباہ کُن موسمی آفات میں اضافہ انسانوں کی وجہ سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں بن رہی ہیں۔
تصویر: Pedro Rances Mattey/AA/picture alliance
نائجیریا کو انسانی تباہی کا سامنا
نائجیریا میں سیلاب سے 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، لاکھوں افراد ہنگامی امداد کے منتظر ہیں۔ 36 ریاستوں میں سے 33 متاثر ہوئی ہیں۔ ملک کو بیماریوں اور خوراک کی کمی کے المیے کا سامنا ہے۔ نائجیریا کے ساحلی علاقوں میں سیلاب ایک معمول کی بات ہے، لیکن اس بار کا سیلاب ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں بدترین ثابت ہوا۔ حکام نے اس کا ذمہ دار شدید بارشوں اور کیمرون کی طرف سے ڈیم کا پانی چھوڑنے کو ٹھہرایا ہے۔
تصویر: Ayodeji Oluwagbemiga/REUTERS
چاڈ کی خُشک سالی کو سیلاب نے دور کیا
طویل خشک سالی کے بعد، 30 سالوں میں ہونے والی سب سے زیادہ بارشوں نے وسطی افریقی ملک چاڈ کے بڑے حصے کو صرف کشتیوں کے ذریعے سفر کرنے کے قابل چھوڑا ہے۔ ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ چرواہے جانوروں کو چارہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا تخمینہ ہے کہ خشک سالی اور سیلاب نے 2.1 ملین افراد کو شدید بھوک سے دوچار کردیا ہے، غذائی اجزا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
تصویر: Mahamat Ramadane/REUTERS
سری لنکا ڈوب گیا
سری لنکا میں سیلاب سے کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں، دارالحکومت کولمبو خاص طور پر شدید متاثر ہوا ہے۔ سیلاب سے ملک کے کچھ حصوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے زیادہ خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ جب کہ آنے والے دنوں میں مزید شدید بارشوں کی توقع ہے۔
پاکستان کو گوناگوں بیماریوں اور غذائی قلت کا سامنا
مون سون کی بے مثال بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پاکستان بھر میں ڈیڑھ ملین سے زائد افراد کو خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ اس دوران 1,700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سیلاب کا پانی آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے، لیکن سندھ اور بلوچستان کو اب پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ صحت کی سہولیات کی ابتر صورتحال، کھڑا پانی، ادویات کا کم ذخیرہ اور صفائی کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Sabir Mazhar/AA/picture alliance
وینیزویلا کے کئی قصبے لینڈ سلائیڈنگ کی نذر
وینیزویلا میں رواں ماہ سیلاب کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ اور دریا میں طغیانی کے سبب 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ملکی حکومت کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں نے گزشتہ کم از کم ایک دہائی کے دوران بدترین آفات کو جنم دیا ہے، جس کی ذمہ دار موسمیاتی تبدیلی ہے۔ مشکل سے متاثرہ ریاست اراگوا سمیت پورے ملک میں مزید بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
تصویر: Pedro Rances Mattey/AA/picture alliance
فلپائن میں سیلاب زندگی کی ایک حقیقت
فلپائن کے کچھ حصوں میں بار بار آنے والے سیلاب سے نمٹنے کے لیے موٹر سائیکل ٹیکسی مالکان نے اپنی موٹر سائیکلوں میں شدید موسم سے نمٹنے کے لیے تبدیلیاں لانا شروع کر دی ہیں۔ دارالحکومت منیلا کے باہر ہاگونوئے میں، مون سون کے موسم میں بارش کی سطح دو میٹر (6.5 فٹ) تک رہی۔ اس ہفتے کے شروع میں ایک طوفان نے ملک کے شمال میں دیہاتوں اور کھیتوں کو مکمل غرق کر دیا۔
تصویر: Eloisa Lopez/REUTERS
کیا ان تباہیوں کی ذمہ دار موسمیاتی تبدیلیاں ہیں؟
تباہ کن موسمی واقعات انسانوں کی لائی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئے دن رونما ہو رہے ہیں اور ان میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ گرم ماحول کی وجہ سے آب و ہوا میں نمی بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں شدید بارش ہو سکتی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے کسی ایک واقعہ میں کتنا حصہ ڈالا، لیکن مجموعی رجحان واضح ہے۔ المیہ یہ کہ اقتصادی طور پر کمزور ممالک اس مسئلے کے سب سے کم ذمہ دار ہیں۔
تصویر: Sanjev Gupta/dpa/picture alliance
دنیا اس بارے میں کیا کر سکتی ہے؟
پیرس معاہدے کے تحت طے شدہ اہداف تک پہنچنے کے لیے تمام ممالک کو ضرر رساں گیس کے اخراج میں تیزی سے کمی کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ رواں صدی کے وسط تک درجہ حرارت کو صفر کے قریب لایا جاسکے۔ سیلاب جیسی آفت کے خطرے سے دوچار ممالک کو سیلاب سمیت دیگر موسمیاتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے انتباہی نظام کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے نظاموں کی ادائیگی اقوام متحدہ کی آئندہ آب و ہوا کانفرنس کا ایک اہم مرکزی موضوع ہوگا۔