افغانستان میں شیعہ مسلمانوں پر حملے، داعش کیا چاہتی ہے؟
صائمہ حیدر
27 اکتوبر 2017
اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے شہر کابل میں شیعہ مسلک کے مسلمانوں کی مسجد میں گزشتہ ہفتے ہونے والا قتل عام ملک میں شیعہ اقلیت کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل اور داعش کی جانب سے فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش ہے۔
اشتہار
اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں جہادی گروپ داعش کے شیعہ مسلمانوں پر دن بدن بڑھتے حملوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ شدت پسند گروہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی لہر پیدا کرنا چاہتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کابل میں امام زمان مسجد میں خود کش حملے کے شکار اور عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے حملہ آور کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھا لیکن وہاں سیکیورٹی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ حملے سے متاثرہ ان افراد کے مطابق حکومت کی جانب سے شیعہ مساجد کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ شیعہ مساجد میں نمازیوں پر ہونے والے ان خود کش حملوں کے تازہ ترین واقعات میں درجنوں خواتین، مرد اور بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس بھی ایسے بم حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امام زمان مسجد میں ہوئے خود کش حملے میں شدید زخمی ہونے والے علی گل نے اے ایف پی کو بتایا،’’ اس دن کسی کی جامہ تلاشی نہیں لی گئی۔ محرم کے مہینے میں چیکنگ سخت تھی لیکن اس کے بعد کوئی سکیورٹی چیکنگ نہیں کی گئی۔‘‘
ابھی تک افغانستان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک برس میں شیعہ مسلمانوں پر حملوں میں جس تیزی سے جہادی گروہ داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، ماہرین کو خدشہ ہے کہ کہیں یہاں بھی فرقہ واریت کا عفریت اپنے قدم نہ جما لے۔
سنی اکثریتی ملک افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد قریب تین ملین ہے۔ رواں برس اسلامی مہینے محرم کے شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت نے چار سو شہریوں کو شیعہ مساجد کی حفاظت کے لیے مسلح کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ حملے روکے نہ جا سکے۔
گزشتہ جمعے کے حملے میں زخمی ہونے والے حاجی رمضان نے اے ایف پی کو بتایا،’’ یہ سو فیصد حکومت کی غلطی ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘
شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے محمد اکبری کا کہنا تھا کہ پہلی اکتوبر کو عاشورہ محرم کے بعد سے شیعہ مساجد کو فراہم کی جانے والی سکیورٹی بہت کم رہ گئی ہے اور کابل کی امام زمان مسجد میں گزشتہ ہفتے ہوئے خود کش حملے کو غفلت سے بیدار ہونے کی گھنٹی سمجھا جانا چاہیے۔
امام زمان مسجد سے ملحق شیعہ علاقے میں کمیونٹی کے ایک بزرگ فرد ابراہیم کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند افغانستان میں شیعہ اور سنی مسلک کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تصویر: Reuters
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: /AFP/Getty Images
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
تصویر: G. Kakar
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔