1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں متعدد افراد کو سرعام کوڑے مارنے کی سزا دی گئی

24 نومبر 2022

طالبان حکام کی جانب سے زنا، ڈکیتی اور 'بدعنوانی کی بعض دیگر اقسام' سمیت مختلف طرح کے 'گناہوں' کے لیے سر عام یہ سزائیں دی گئیں۔ اسٹیڈیم میں سزا پر عمل درآمد کا سینکڑوں لوگوں نے مشاہدہ بھی کیا۔

Konflikt in Afghanistan
تصویر: Oliver Weiken/dpa/picture alliance

افغانستان میں طالبان حکام کی زیرقیادت سپریم کورٹ نے 23 نومبر بدھ کے روز بتایا کہ ملک کے مشرقی صوبے لوگر میں ایک فٹ بال اسٹیڈیم کے اندر چودہ افراد کو کوڑے مارنے کی سزائیں دی گئیں۔ طالبان کے اس اقدام سے ایک بار پھر اس بات کا واضح اشارہ ملتا ہے کہ وہ ملک میں اسلامی شریعت کی اپنی سخت تشریح کو نافذ کرنے کی جانب گامزن ہیں۔

تعلیمی ادارے کے حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا، طالبان

طالبان کی سپریم کورٹ نے اس سزا سے متعلق ٹویٹر پر لکھا، ''لوگر (صوبہ) میں فٹ بال اسٹیڈیم میں زنا، ڈکیتی اور بدعنوانی کی دیگر اقسام سمیت مختلف گناہوں کے لیے علماء، حکام اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں تین خواتین سمیت چودہ افراد کو کوڑے مارے گئے۔''

چمن میں پاکستانی فوج اور طالبان کے مابین سرحدی جھڑپ

سینکڑوں افراد نے سزا کا مشاہدہ کیا

عدالت عظمی کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ طالبان کے اعلی روحانی رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ججوں سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ سزائیں شرعی قانون کے مطابق دی جانی چاہئیں۔

کابل کے جنوب میں واقع صوبہ لوگر کے گورنر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اس سزا کے موقع پر ''معزز علماء، مجاہدین، عمائدین، قبائلی رہنماؤں اور مقامی لوگوں '' کو پل عالم کے فٹ بال اسٹیڈیم میں مدعو کیا گیا تھا۔

ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سزا پر عمل درآمد کو دیکھنے کے لیے  سینکڑوں افراد موجود تھے اور جن افراد کو سزا دی گئی انہیں 21 سے لیکر 39 کوڑے تک مارے گئے۔

سن 1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی سرعام کوڑے مارنے، ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے جیسے واقعات پیش آئے تھے۔

سن 1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی سرعام کوڑے مارنے، ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے جیسے واقعات پیش آئے تھےتصویر: CHAND KHAN/AFP via Getty Images

اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے بین الاقوامی برادری عسکریت پسند گروپ طالبان کی کارروائیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کے انسانی حقوق کے ٹریک ریکارڈ اور خواتین کے حقوق پر اس کی خصوصی نظر ہے۔

گزشتہ مارچ میں طالبان لڑکیوں کے تمام ہائی اسکول کھولنے کے وعدے سے بھی پیچھے ہٹ گئے تھے، جس کی وجہ سے طالبات ثانوی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم ہو گئی ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں ہی افغانستان کی ''اخلاقی پولیس'' نے حکم دیا تھا کہ ملک کے تمام تفریحی پارکوں کو اب خواتین کے داخلے کو ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کی تازہ ترین پامالی ہے۔

ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا اور ان ممالک کا کہنا ہے کہ پہلے طالبان کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنے ملک میں انسانی حقوق کی پاسبانی قائم رکھیں گے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

طالبان سے تنگ افغان فنکار نے پاکستان ميں گھر بسا ليا

06:04

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں