افغانستان کے شورش زده صوبے ہلمند میں مقامی افراد نے طالبان اور کابل حکومت پر قیام امن کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر اپنی نوعیت کی پہلی بهوک ہڑتال کا آغاز کر دیا ہے۔
اشتہار
افغانستان کے جنوب میں اس تاریخی عوامی تحریک کی بنیاد گزشته ہفتے پڑی جب لشکر گاه شہر کے غازی محمد ایوب خان اسٹیڈیم کے باہر ایک کار بم دهماکے نے 15 نہتے شہریوں کی جان لے لی، جو کُشتی کا ایک مقابله دیکهنے کے بعد گهر لوٹ رہے تھے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد اوائل میں ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکر گاه میں سول سوسائٹی کے ارکان نے احتجاجی خیمے کهڑے کر ڈالے، جسے ’’ہلمند پرلت‘‘ یا ہلمند دهرنے کا نام دیا گیا اور ان کا نعره تها، ’لہ لشلرگاہ تر موسی قلعه د سولی حرکت‘‘، یعنی ’’لشکرگاه سے موسیٰ قلعه امن کی تحریک‘‘۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
منتظمین نے طالبان کے زیر اثر ضلع موسیٰ قلعه تک ایک امن کاروان لے جانے کا عزم ظاہر کیا۔ اس تحریک میں غیر معمولی طور پر خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت بهی اپنی نوعیت کی اہم پیش رفت ہے۔ جمعرات 29 مارچ کو دهرنے کے شرکا نے طالبان باغیوں اور حکومت پر مزید دباؤ بڑهانے کی خاطر بهوک ہڑتال شروع کر ڈالی۔
مقامی آبادی کے اس غیر معمولی اقدام کے جواب میں طالبان کی جانب سے ایک صوتی پیغام جاری کیا گیا۔ قاری یوسف احمدی نامی طالبان کے ایک ترجمان نے اس پیغام میں کہا که ان کی قیادت کا مطالبه ہے که قندهار اور ہلمند سے غیر ملکی افواج کو نکالا جائے۔
ہلمند کے ایک سماجی کارکن سیف الله نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که جنگ سے بیزار افغان عوام جنازے اٹها اٹها کر تهک چکے ہیں۔ ’’ہماری یه تحریک جاری رہے گی، اس وقت تک جب تک جنگ میں شریک گروه اور حکومت فائر بندی کا اعلان نہیں کر دیتے۔‘‘ ہلمند دهرنے کی خاتون شرکاء میں سے ایک باچا گله کا کہنا تها که دهائیوں سے جاری خون خرابے نے بہت سی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو غم میں مبتلا کر رکها ہے۔ ’’ہم طالبان اور حکومت کو خدا کا واسطه دیتے ہیں که اس جنگ کو بس اب ختم کر دیں‘‘۔
افغانستان میں ہر برس جنگ کے فریقین کے علاوه ہزاروں عام شہری اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ اقوام متحده کے افغانستان میں امدادی مشن ’یوناما‘ کے مطابق گزشته برس دیگر افراد کے علاوه 359 خواتین ہلاک اور 856 زخمی ہوئیں۔
طالبان نے فی الحال صدر محمد اشرف غنی کی جانب سے قیام امن کی غیر معمولی پیش کش کا جواب نہیں دیا ہے۔ صدر غنی نے فروری میں ’کابل پروسس‘ کی نشت کے دوران اعلان کیا که طالبان کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا جاسکتا ہے، اگر وه آئین کو تسلیم کرکے دہشت گردی سے ناطه توڑ دیں۔ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے مدعے پر صدر غنی کے سیاسی مشیر محمد اکرم خپلواک نے گزشته روز ایک مقامی ریڈیو کو بتایا که اس موضوع پر پیش رفت محض اس وقت ممکن ہے، جب طالبان امن مذاکرات کے لیے حاضر ہوجائیں۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
واضح رہے که افغانستان کے لیے سابقه امریکی پالیسیوں کے برعکس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں فوجی انخلا کے لیے کوئی مشخص تاریخ دینے کے بجائے ’جیت‘ کو فوقیت دی گئی ہے، جس سے اس جنگ زده ملک میں غیر ملکی فوجیوں کے لامحدود وقت تک موجودگی کا اشاره ملتا ہے۔ طالبان امور کے ماہر سید اکبر آغا کے بقول یهی نکته تنازعے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان کا ماننا ہے که غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا ٹائم ٹیبل اعلان کرکے ہی طالبان کو امن مذاکرات کے لیے راغب کیا جاسکتا ہے۔
ان سب معاملات کے پسِ منظر میں افغانستان میں موسم بہار کی آمد کے ساته ہی نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ کابل حکومت نے مسلح باغیوں کے خلاف ملک بهر میں ’نصرت‘ نامی فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے اور اگر ہلمند کے احتجاجی مرد و حضرات کی بهوک ہڑتال بهی قیام امن میں ناکام رہی تو جلد ہی طالبان بهی اپنی نئی سالانه کارروائیوں کا اعلان کر سکتے ہیں۔