1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں قیدیوں پر تشدد اب بھی معمول

Afsar Awan21 جنوری 2013

افغانستان میں شدت پسندی کے الزام میں گرفتار کیے جانے والوں پر تشدد اب بھی عام ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملزموں پر تشدد کے لیے مار پیٹ اور بجلی کے جھٹکوں کے علاوہ کئی دیگر طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

تصویر: dapd

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی طرف سے اس ملک میں زیر حراست افراد پر تشدد کے حوالے سے یہ تازہ رپورٹ اتوار 20 جنوری کو جاری کی گئی۔ 139 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے مطابق قیدیوں پر تشدد کی دیگر صورتوں میں انہیں کلائیوں سے زنجیر باندھ کر کافی دیر تک لٹکائے رکھنا اور انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی دھمکی دینے جیسے طریقے بھی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کے ذریعے جن لوگوں سے جرائم کا اقرار کروایا گیا ان میں سے زیادہ تعداد 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کے ذریعے جن لوگوں سے جرائم کا اقرار کروایا گیا ان میں سے زیادہ تعداد 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کی تھیتصویر: Getty Images

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب افغان حکومت کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ملک میں موجود ایسی جیلوں کا مکمل کنٹرول افغان حکام کے حوالے کیا جائے جو اس وقت نیٹو اور بین الاقوامی امدادی افواج کے زیر کنٹرول ہیں۔

افغانستان میں تعینات بین الاقوامی امدادی فوج ISAF کی طرف سے گزشتہ برس اکتوبر میں زیر حراست افراد کو افغان حکومت کے زیر انتظام جیلوں میں منتقل کرنے کا عمل روک دیا گیا تھا۔ تشدد کی رپورٹیں موصول ہونے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا کہ منتقلی کا عمل روکا گیا۔

افغان صدر حامد کرزئی قیدیوں کو افغان حکام کے مکمل کنٹرول میں دینے کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیٹو افواج کے 2014ء میں ملک سے نکلنے سے قبل ان جیلوں کا انتظام افغان حکومت کو منتقل کیا جانا ملکی خود مختاری کا معاملہ ہے۔

نومبر 2012ء میں حامد کرزئی نے امریکا پر الزام لگایا تھا کہ اس نے بگرام جیل افغان حکومت کے انتظام میں دینے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس جیل میں تین ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں اور اسے ’افغانستان میں گوانتامو جیل‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

افغان صدر حامد کرزئی قیدیوں کو افغان حکام کے مکمل کنٹرول میں دینے کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیںتصویر: AP

اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس ادارے کے ماہرین نے اکتوبر 2011ء سے اکتوبر 2012ء کے دوران جن 635 قیدیوں سے معلومات اکٹھی کیں، ان میں سے نصف سے زائد کو ایسے مراکز پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو افغان پولیس اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ فار سکیورٹی کے زیر انتظام ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ژان کیوبس Jan Kubis کے مطابق اقوام متحدہ کے مشن کی طرف سے حاصل ہونے والی معلومات ’سنجیدہ خدشات کا باعث‘ ہیں۔ کیوبس کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے زیر حراست افراد پر تشدد کے واقعات روکنے کی کوششیں لائق تحسین ہیں تاہم ابھی اس سلسلے میں مزید کاوشوں کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق تازہ رپورٹ سے اس بات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ افغانستان میں عدالتی نظام، استغاثہ اور قانون کے نفاذ سے متعلق شعبوں میں فوری اصلاحات لائی جائیں۔

aba/mm (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں