1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں مہاجرین کو شدید سرد موسم کا خوف

18 دسمبر 2012

افغانستان میں موسم سرما بتدریج شدید ہوتا چلا جا رہا ہے اور ایسے میں اندرون ملک مہاجرت کرنے والے افراد کو موسم سرما کا خوف لاحق ہو گیا ہے۔ گزشتہ موسم سرما میں شدید سردی کی وجہ سے کئی افغانی ہلاک ہو گئے تھے۔

تصویر: AP

افغانسان کے دارالحکومت کابل کے نواحی علاقے چراہی قمبرکی آبادی میں مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں اندرون افغانستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے پناہ گزین آ کر آباد ہو رہے ہیں۔ یہاں ایک ہزار سے زائد خاندان آ کر جھگیوں میں رہ رہے ہیں۔ ان میں اب مزید 60 خاندان آ کر شامل ہو گئے ہیں۔ شورش زدہ افغان صوبوں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو کر پرامن علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

انجلینا جُولی کابل کے قریب ایک مہاجر کیمپ میںتصویر: UNHCR/Jason Tanner

افغانستان میں فروری کے وسط میں شدید برفباری کا امکان ہوتا ہے۔ کابل میں گزشتہ جمعرات سے موسم سرما کی شدت میں اضافے کا عمل ہلکی برفباری اور بارش سے شروع ہو گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں بارش میں اضافے کے علاوہ برفباری بھی بڑھنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ چراہی قمبر میں قائم جھگیوں میں مقیم افغان پناہ گزین خوف زدہ ہیں کہ اب کی بار کیا ہو گا۔ سخت سرد موسم کے دوران زیادہ تر ہلاکتیں انہیں جھگیوں میں ہوتی ہیں۔

گزشتہ شدید سرد موسم کے دوران کم از کم 30 مہاجر منجمد ہو کر ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔ گزشتہ موسم سرما کے دوران افغانستان میں انتہائی شدید سردی ریکارڈ کی گئی تھی۔ بچوں کے سردی میں اکڑ کر ہلاک ہونے کی اطلاع پر حکومتی اور دوسری امدادی ایجنسیاں چراہی قمبر ضرور پہنچیں مگر بدانتظامی کی وجہ سے امداد تمام مہاجرین تک نہ پہنچ سکی۔

امداد کی تقسیم کے وقت مہاجر کیمپ میں اٹھے ہاتھتصویر: AP

چراہی قمبر کے علاوہ جہاں جہاں نقل مکانی کرنے والے افغانی جھگیوں میں رہ رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ موسم سرما کی ہر رات ان کے لیے ایک بھیانک خواب کی طرح ہے اور کوئی پتہ نہیں کہ رات میں سوتے ہوئے کیا ہو جائے۔ ان افغانیوں کی گزر بسر بھی فروٹ بیچ کر ہوتی ہے۔ اندازاً ایک افغانی اناروں کے تین ڈبے فروخت کر کے محض تین ڈالر تک ہی کما سکتا ہے۔ اس وقت کابل کے قرب و جوار میں 5200 خاندان آباد ہیں اور ان میں افراد کی تعداد 60000 تک پہنچتی ہے اور نصف ان میں بچے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی امداد کو مربوط کرنے کے ادارے (OCHA) کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مختلف مقامات پر اندرونی طور پر نقل مکانی پر مجبور افراد کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اور یہ لوگ سخت اور شدید ہوتے موسم کے رحم و کرم پر ہیں۔ ادارے کے مطابق کیمپوں میں رہنے والے افراد کو شدید خطرے کا سامنا ہے اور ان افراد کے لیے کمبلوں، گرم کپڑوں اور خیموں کو مضبوط کرنے والے سامان کی اشد ضرورت ہے۔ جرمن ادارے ڈوئچے ویلٹ ہُنگر ہِلفے کی پراجیکٹ منیجر مگدالینا بابل (Magdalena Babul) کا یہ بھی کہنا ہے کہ اندرونی طور پر بیدخل افغانیوں کی صحت کے لیے سب سے بڑا رسک پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔ ان افغانیوں کے کیمپوں میں آئندہ ہفتوں کے دوران خوراک کی قلت کے ساتھ ساتھ جلانے والی لکڑی کی کمیابی کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ah / aba (dpa)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں