1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں پَے در پَے خود کُش حملے

24 فروری 2013

آج افغانستان کے بالخصوص مشرقی صوبوں میں متعدد خود کُش حملے کیے گئے ہیں جبکہ افغان دارالحکومت کابل میں سکیورٹی فورسز نے بر وقت کارروائی کرتے ہوئے ایک خود کُش کار بم حملے کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔

تصویر: SHAH MARAI/AFP/Getty Images

آج صبح مشرقی صوبے ننگرہار کے شہر جلال آباد میں، جو دارالحکومت کابل سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، ایک خود کُش کار بم حملے میں کم از کم دو انٹیلیجنس افسران ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان احمد ضیاء عبدالزئی کے مطابق نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کی عمارت کے گیٹ پر کیے جانے والے اس حملے میں کوئی شہری زخمی نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ عمارت کو نقصان پہنچا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں 14 انٹیلیجنس افسران ہلاک ہوئے۔

طالبان کے ترجمان نے اس حملے سے کچھ ہی پہلے مشرقی صوبے لوگار کے دارالحکومت پل عالم میں ایک ہائی وے پولیس چیک پوائنٹ پر ہونے والے اُس حملے کی بھی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا، جس میں ایک حملہ آور نے اپنی بارود سے لدی وَین دھماکے سے اڑا دی تھی۔ اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔

اسی صوبے کے ضلع باراکی بارک میں ایک خود کُش حملہ آور نے پولیس ہیڈ کوارٹر میں گھسنے کی کوشش کی اور روکے جانے پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔

کابل میں اتاری گئی 24 فروری کی اس تصویر میں خود کُش حملہ آور کی کار کے ٹوٹے ہوئے آئینے میں سے ایک امریکی فوجی اور ایک افغان پولیس اہلکار نظر آ رہے ہیںتصویر: SHAH MARAI/AFP/Getty Images

اُدھر آج ہی افغان دارالحکومت کابل کے غیر ملکی سفارتخانوں والے علاقے میں سکیورٹی فورسز نے ایک موٹر گاڑی میں بیٹھے ایک مشتبہ خود کُش حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ابتدائی رپورٹوں میں حملہ آوروں کی تعداد دو بتائی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ایک حملہ آور بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ تاہم کابل پولیس کے سربراہ محمد ایوب سالنگی نے کسی دوسرے حملہ آور کی موجودگی کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ واحد حملہ آور کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور اُس کی گاڑی میں نصب بم کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کا کہنا ہے کہ اُس نے ا یک زیر تعمیر عمارت کے قریب ایک کار میں ایک نوجوان شخص کی خون میں لت پت لاش پڑی دیکھی ہے، جسے سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ یہ وہی زیر تعمیر عمارت ہے، جہاں گزشتہ سال اپریل میں بھی طالبان حملہ آوروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان کئی گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ کابل میں زیادہ تر سرکاری دفاتر اور غیر ملکی سفارت خانے وزیر اکبر خان نامی علاقے میں واقع ہیں اور اسی علاقے میں آج اس ممکنہ خود کُش حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔ جہاں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جلال آباد اور پل عالم کے حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے، وہاں یہ کہا ہے کہ کابل میں جس حملےکو ناکام بنایا گیا ہے، اُس سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ بارہ مہینوں سے افغانستان میں پُر تشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ کیا 2014ء کے اواخر میں غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد ساڑھے تین لاکھ سپاہیوں پر مشتمل افغان سکیورٹی فورسز واقعی ملک میں امن و امان قائم کر سکیں گی؟

(aa/ai(afp,reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں