افغانستان میں چھ برطانوی فوجی ہلاک
8 مارچ 2012
یہ واقعہ منگل کو پیش آیا، جس کی تصدیق بدھ کو کی گئی ہے۔ یوں افغانستان میں تعینات برطانوی فورسز کے لیے 2006ء میں ایک طیارے کی تباہی کے بعد یہ بدترین دِن رہا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ان ہلاکتوں کو اپنے ملک کے لیے انتہائی دردناک قرار دیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ منگل کی شام برطانوی فوجی صوبہ ہلمند میں گشت پر تھے کہ ان کی گاڑی حملے کی زد میں آ گئی۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس حملے سے یقینی طور پر افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلاء کے مطالبے زور پکڑیں گے۔ امریکا اور یورپ میں اس کے اتحادی ملکوں میں یہ جنگ ویسے ہی انتہائی غیرمقبول ہو چکی ہے۔
اے پی کے مطابق واشنگٹن انتظامیہ بھی کابل میں صدر حامد کرزئی کی انتظامیہ سے بڑی حد تک بیزار ہو چکی ہے۔ کابل واشنگٹن سے ایک ایسا معاہدہ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے، جس کے تحت 2014ء میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے مجوزہ انخلاء کے بعد بھی کچھ فوجی وہاں رہیں، جن کا بنیادی کردار تربیت اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبوں میں ہو۔
دس برس سے زائد عرصہ قبل افغان جنگ کے آغاز سے ہی ہلمند غیرملکی فوجیوں کے لیے خطرناک علاقہ رہا ہے۔ افغانستان میں تعینات برطانیہ کے ساڑھے نو ہزار فوجیوں میں سے زیادہ تر وہیں ہیں جبکہ اسی صوبے میں امریکا کے بھی ہزاروں فوجی موجود ہیں۔
طالبان کے لیے بھی ہلمند اہم ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں پوست کی نصف فصل وہیں کاشت ہوتی ہے، جو شدت پسندوں کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔
رواں برس اب تک افغانستان میں نیٹو کے 54 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اڑتیس امریکی تھے۔ اس جنگ کے آغاز سے افغانستان میں امریکا کے بعد کسی بھی ملک کے مقابلے میں برطانیہ کے زیادہ فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، جن کی تعداد چار سو چار رہی ہے جبکہ امریکی فوجی ہلاکتوں کی تعداد 1,780رہی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس