افغانستان میں چینی فوجی اڈے کا مبینہ پلان، اثرات کیا ہوں گے؟
عبدالستار، اسلام آباد
2 فروری 2018
افغانستان اور چین کے درمیان واخان کی شمالی افغان پٹی میں ایک چینی فوجی اڈے کے مبینہ قیام کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کی خبروں پر پاکستان کے بہت سے حلقوں میں بڑی دلچسپی اور تجسس دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستان میں چند تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کابل حکومت کا یہ ایک دانش مندانہ فیصلہ ہو گا کہ وہ چین کو اپنے ریاستی علاقے میں ایسی کوئی ملٹر ی بیس قائم کرنے کی اجازت دے دے۔ لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کی غیر اعلانیہ مخاصمت کے پیش نظر افغان حکومت کے لیے یہ بہت ہی مشکل ہو گا کہ وہ ان دونوں عالمی طاقتوں سے اپنے متوازن تعلقات کو یقینی بنا سکے۔
چین ماضی میں سرکاری طور پر اس بات سے انکاری رہا ہے کہ وہ کوئی اہنا کوئی فوجی اڈہ شمالی افغانستان میں قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیجنگ کی اس حوالے سے کابل حکومت کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔
چین کا افغانستان میں فوجی اڈے کے قیام کا منصوبہ
پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ ایک دانش مندانہ اقدام ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کے خیال میں افغانستان اس وقت مدد کا متلاشی ہے اور یہ مدد اسے کہیں سے بھی ملے گی، تو وہ لے لے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغانستان خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا ہے۔ وہ امن کی تلاش میں ہے۔ ایسے میں کوئی بھی ملک اگر اس کو مدد دے گا، تو کابل اسے قبول کر لے گا۔ چاہے یہ مدد چین سے آئے، روس یا پھر یورپی یونین سے۔‘‘
ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ افغانستان وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرح دو سپر پاورز کی مخاصمت کو اپنے لیے استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’افغانستا ن تو خود تباہی سے دوچار ہے۔ وہ ایسا کیوں کرے گا؟ وسطی ایشیائی ریاستوں میں بدامنی یا خانہ جنگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی بھارت میں ایسی کوئی صورت حا ل تھی۔ اسی لیے نئی دہلی نے سرد جنگ کے دور میں روس اور امریکا دونوں سے مال بٹورا۔ لیکن افغانستان کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کابل کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ وہ چین اورامریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک توازن قائم کرے، ’’افغانستان میں سیاسی تقسیم بہت شدید ہے۔ رشید دوستم اور دیگر ازبک رہنما ترکی اور روس اور چند دیگر ریاستوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عبداللہ عبداللہ اور سابقہ شمالی اتحاد کے کچھ دیگر رہنما بھارت کے دوست ہیں۔ حزب وحدت اور کچھ شیعہ تنظیمیں ایران نواز ہیں۔ عبدالرسول سیاف اور چند دوسرے سیاست دان سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کی کچھ دیگر ریاستوں کے قریب ہیں۔ پختونوں کا ایک حصہ پاکستان سے اچھے تعلقات چاہتا ہے جب کہ سیکولر اور لبرل افغان امریکا اور یورپ کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ تو یہ سیاسی تقسیم اور امریکا کا یہ اعلان کہ چین اس کا اسٹریٹیجک حریف ہے، اُن عوامل میں سے محض چند ہیں، جن کی وجہ سے افغان حکومت کے لیے یہ مشکل ہو گا کہ وہ بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کر سکے۔‘‘
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ یہ توازن قائم کرنا آسان نہیں ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز آسان نہیں ہوتی۔ پہلے افغانستان میں امریکا اور بھارت کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ اب چین کے آنے سے ان کے لیے نئے راستے کھلیں گے اور کابل حکومت کو نئے مواقع میسر ہوں گے۔ اس بات کا انحصار اب کابل پر ہو گا کہ وہ ان مواقع کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ اگر پاکستان جیسے طاقت ور ملک کو چین سے قربت کے نتیجے میں دباؤ کا سامنا ہے تو افغانستان کو بھی ایسے ہی دباؤ کا سامنا ہو گا، لیکن افغانوں کو اس سے نمٹنا ہو گا۔‘‘
ڈاکٹر وزارت کا کہنا تھا کہ آنے والے وقتوں میں چین کا اثر و رسوخ افغانستان میں زور بڑھے گا، ’’میرے خیال میں یہ اثر و رسوخ پاکستان کے لیے مثبت ہے، کیونکہ چین پاکستان کا دوست ہے اور وہاں چینی اثر و رسوخ سے ایک طرف تو بھارت اور امریکا کا اثر و رسوخ کم ہو گا اور دوسری طرف اس بات کا امکان بھی پیدا ہو جائے گا کہ افغانستان میں امن و استحکام کی واپسی ہو۔‘‘
لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں چین افغانستان کے استحکام میں اس لیے دلچسپی لے رہا ہے کہ وہ اس امن کی بدولت اپنے لیے معاشی فائدے اٹھا سکے۔ کابل سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار وحید اللہ عزیزی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’چین افغانستان میں استحکام کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ بیجنگ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ طالبان اور دوسرے مسلح گروہوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکے۔ افغانستان میں امن سے چین کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ لوگر صوبے میں تانبے کی کان کنی شروع کر سکے گا، جو کافی عرصے سے رکی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی وہ ایسے ہی دوسرے منصوبے بھی شروع کر سکے گا۔ افغانستان میں کان کنی کے کاروبار میں مواقع بہت ہیں لیکن ان کے لیے امن بھی ضروری ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں وحید اللہ عزیزی نے کہا، ’’کابل تمام ممالک سے شراکت داری کی بنیاد پر متوازن تعلقات چاہتا ہے۔ چین سے بہتر تعلقات ان پانچ بنیادی اصولوں کا حصہ ہیں، جو موجودہ حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کے لیے بنا رکھے ہیں۔ لیکن ان بہتر تعلقات کے باوجود میرے خیال میں سرِ دست اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کابل حکومت چین کو افغان علاقے میں کوئی فوجی اڈہ قائم کرنے دے۔‘‘
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔