افغانستان ميں متعین امریکی افواج نے موسم بہار کی آمد سے قبل ہی طالبان اور داعش کے ٹهکانوں پر ڈرونز کے ساتھ ساتھ اب بوئنگ بی باون سب سونک لڑاکا طیاروں سے بمباری میں شدت پیدا کر دی ہے۔
اشتہار
ملک کے شورش زده جنوبی اور شمالی خطوں میں معمول کے مطابق ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ اب اس بڑے جنگی طیارے کی پروازیں اور بمباری نمایاں ہوتی جا رہی ہیں، جو وہاں متعین امریکی افواج کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیاده جارحانه اور آزاد جنگی پالیسی کا ایک اور ثبوت ہے۔ دو تازه حملے شمال مشرقی صوبه بدخشان اور شمالی صوبه جوزجان میں کیے گئے، جن میں حکومتی دعووں کے مطابق درجنوں عسکریت پسند مارے گئے۔ جوزجان کی صوبائی انتظامیه کے ترجمان محمد رضا کے بقول ايک بی باون طیارے نے ان کے زیر انتظام درزاب نامی ضلع میں داعش کے شدت پسندوں کی آماجگاه کو نشانه بنایا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس حملے میں پچيس جنگجو مارے گئے، جن میں ازبکستانی، چیچن اور عرب بهی شامل تھے۔‘‘
واضح رہے که پاکستان کی قبائلی پٹی سے منسلک مشرقی صوبے ننگرہار کے علاوه ترکمانستان سے منسلک جوزجان صوبه، افغانستان میں داعش کے دوسرے اہم ترين ٹھکانے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ بالخصوص ضلع درزاب میں عسکریت پسند خاصے فعال ہیں۔
امریکی افواج کی جانب سے درزاب میں کیا گیا فضائی حمله ’Expansion of the US air campaign in the North‘ نامی مہم کا حصه ہے۔ اس ضمن میں پہلا حمله گزشته ہفتے بدخشان صوبے میں کیا گیا تھا، جہاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مطابق تاجکستان اور چین کی سرحدوں کے نزدیک دہشت گردوں کو نشانه بنایا گیا جو منصوبه بندی اور مشقوں میں مصروف تهے۔
نیٹو کے اعلامیے کے مطابق، ’’حملوں کے دوران امریکی فضائیه کے ایک بی باون طيارے نے طالبان کی جنگی پوزیشنز پر اہداف کو نشانه بنانے والے چوبيس بم داغے، جو اس طيارے کی جانب سے ایک ریکارڈ ہے۔‘‘ افغانستان متعین نیٹو اور امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے ان حملوں کے تناظر میں مسلح باغیوں کو پیغام دیا ہے که وه کسی صورت بهی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ ’’کسی بهی ایسے دہشت گرد گروه کے لیے کوئی بهی محفوظ پناه گاه نہیں رہے گی، جو اس ملک کے لیے تباہی اور ضرر کا سبب ہیں۔‘‘
افغان ایئر فورس بهی ماضی کے برعکس اب زمینی افواج کی معاونت کرتے ہوئے اور عسکریت پسندوں کے خلاف زیاده فعال انداز ميں کارروائياں کرتے ہوئے دکهائی دے رہی ہے۔ ملکی وزارت دفاع کے مطابق گزشته دنوں فضائیه کے جنگی طیاروں نے پچاس سے زائد آپریشنز میں حصه لیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق دس صوبوں میں کیے گئے ان آپریشنز میں طالبان اور داعش سے جڑے چھياسٹھ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا.
دريں اثناء يہ امر بھی اہم ہے کہ فضائی حملوں میں نمایاں اضافے نے سویلین ہلاکتوں سے متعلق خدشات بهی بڑها دیے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازه رپورٹ کے مطابق اگر امریکی اور افغان افواج سویلین ہلاکتوں کو محدود رکھنے کی کوششيں نہیں کریں گے، لوگ اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے طالبان اور داعش کے کنٹرول کو بهی تسلیم کر سکتے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ ميں اس بابت دعویٰ کيا گيا ہے که عراق اور شام میں امريکی فضائی حملوں کے دوران ہونے والی شہریيوں کی ہلاکتوں کی تعداد معلوم شدہ اعداد و شمار سے کہيں زيادہ ہيں۔
افغانستان میں بهی فضائی حملوں میں اضافه جنگ کی نوعیت میں تبدیلی کا سبب بن رہا ہے. اقوام متحده کے افغان مشن کے ايک ذرائع کے مطابق گزشته برس زمینی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد میں کمی البته فضائی حملوں کے سبب ہونے والی شہريوں کی ہلاکتوں میں باون فيصدکا نمایاں اضافه ہوا۔ سال 2017 کے ابتدائی سات ماه ميں 200 سے زائد افراد کی جانیں فضائی حملوں میں ضائع ہوئیں۔
رواں ہفتے ایک ایسا افسوس ناک واقعه خوست صوبے میں پیش آیا، جہاں ایک ہی خاندان کے سات افراد ايک فضائی حملے میں مارے گئے۔ علی شیر ضلع میں پیش آنے والے اس واقعے کے متاثرین کو جمعرات کے روز سپرد خاک کیا گیا۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔