1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں کرپشن کے خلاف ٹیلی فون ہاٹ لائن

25 مارچ 2010

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں بدعنوانی کے خلاف کامیاب جنگ کے بغیر وہاں سلامتی کی خراب تر صورت حال میں بہتری انتہائی مشکل ہو گی۔ اب افغانستان میں ایک اینٹی کرپشن ٹیلی فون ہاٹ لائن قائم کر دی گئی ہے۔

افغان صدر کرزئی نے اپنے دوبارہ انتخاب کے بعد کرپشن کے خلاف کامیاب جنگ کا وعدہ کیا تھاتصویر: AP

اس کا مقصد عام شہریوں اور کاروباری شخصیات کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ ان مقامی لیکن بدعنوان دفتری اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف شکایت کر سکیں، جو اپنے معمول کے فرائض کی انجام دہی کے لئے رشوت طلب کرتے ہیں۔

آج کل افغانستان میں قومی ریڈیو پر مختلف پروگراموں کے دوران بار بار ایسے اشتہار بھی چلائے جاتے ہیں، جن میں خاص طور پر ملکی تاجروں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سرکاری اہلکار ان سے زبردستی رشوت طلب کرتا ہے تو انہیں کسی بھی جگہ سے اس کی اطلاع 5151 پر اینٹی کرپشن ہاٹ لائن کو دینا چاہیے۔

اس ہاٹ لائن کے قیام کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ ملک میں ان شہروں، محکموں اور مقامات کا تعین کیا جا سکے، جہاں عام شہریوں اور کاروباری افراد کو رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ آیا افغانستان میں بدعنوانی کے وسیع تر مسئلے کے خلاف جنگ ایک ٹیلی فون ہاٹ لائن قائم کرنے سے جیتی جا سکے گی، اس بارے میں فوری طور پر کوئی بھی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔

افغان شہریوں کو شکایت ہے کہ انہیں روزمری زندگی کے سبھی شعبوں میں بدعنوانی کا سامنا ہےتصویر: AP

تاہم افغانستان میں برآمدات کی ترقی کے قومی ادارے EPAA کے سربراہ احمد جاوید کہتے ہیں کہ اس وقت اس ہاٹ لائن کے ذریعے اپنی شکایات درج کرانے والے افغان تاجروں کی ماہانہ اوسط تعداد 70 اور 150 کے درمیان رہتی ہے۔ فون پر شکایات درج کرانے والوں کے موقف کا باقاعدہ کمپیوٹر پر ریکارڈ رکھا جاتا ہے، جس کے بعد یہ چھان بین کی جاتی ہے کہ کسی بھی اہلکار کے خلاف بدعنوانی کی شکایت کس حد تک بجا ہو سکتی ہے۔

احمد جاوید کے بقول افغانستان میں بدعنوانی کا مسئلہ روزمرہ زندگی میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ اس کا سامنا وہاں نیٹو کے فوجی دستوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چند خاص علاقوں میں تو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں کو بھی ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے کہ ان سے بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔ ’’اس صورت حال کے خلاف سلامتی کے شدید خطرات کی وجہ سے فی الحال کوئی زیادہ موثر اقدامات نہیں کئے جا سکتے۔‘‘

افغانستان کی صورت حال اور وہا‌ں طالبان کے خلاف مسلح کارروائیوں پر نظر رکھنے والے کئی غیر ملکی ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ایسے ملک میں، جہاں گزشتہ صدارتی انتخابات کے دوران ڈالے گئے بہت سے ووٹوں کو دانستہ بےقاعدگیوں کے باعث منسوخ کرنا پڑا تھا، وہاں کرپشن کا خاتمہ طالبان کے مکمل طور پر خاتمے سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں