1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

’افغانستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے‘

13 مارچ 2022

یہ الفاظ پچیس سالہ ستار امیری کے ہیں، جو اپنا ملک چھوڑنے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پانچ سے چھ ہزار افغان شہری پاکستان یا ایران کے راستے اپنا ملک چھوڑ رہے ہیں۔

Afghanische Flüchtlinge im Iran
تصویر: BR

امریکی اور نیٹو افواج کے اچانک انخلا کے بعد اس وقت طالبان افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں لیکن ملک معاشی اور سماجی افراتفری کا شکار ہو چکا ہے۔ بھوک اور غربت پھیل رہی ہے۔

ان ہی حالات کی وجہ سے مزار شریف کے رہائشی ستار امیری  ایک پک اپ میں اپنے چھوٹے سے بچے اور بیوی کو لے کر صحرائی راستے سے ایران کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ انہیں منزل ملے گی یا نہیں، اس کا علم کسی کو نہیں۔ لیکن افغان شہری اپنے ملک سے نکلنے کے لیے بیتاب ہیں۔

پشاور میں ہزاروں افغان مہاجر بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع

صحرا کا یہ سفر جان بھی لے سکتا ہے راستہ بھٹکنے سے یا ایرانی سرحدی محافظین کی گولیوں سے۔ پریشان حال افغان شہری جان پر کھیلنے سے نہیں گھبراتے۔ افغانستان اس وقت دہائیوں کی جنگی حالات میں رہنے کے بعد اب گہرے انسانی المیے کی گرفت میں ہے۔

نارویجین ریفیوجی کونسل کے سربراہ ایران میں افغان مہاجرین کے کیمپ کا دورہ کرتے ہوئےتصویر: LAILA MATAR/NRC/AFP

ایران کی جانب رُخ

بے شمار افغان اس وقت ایران کی جانب رخ کیے ہوئے ہیں کہ وہاں پہنچ کر کام تلاش کریں اور جو کمائیں، اس میں سے کچھ رقم افغانستان میں مقیم خاندان کو روانہ کر سکیں۔

کئی افغان شہریوں کو ماضی میں سابقہ حکومت اور غیر ملکی افواج کے ساتھ ہمدردیاں اور ان کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے طالبان کی طرف سے ٹارگٹ بنائے جانے کا خوف بھی لاحق ہے۔

کئی افراد ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں اور وہ ہفتہ وار ایک ہزار افغانی یا دس ڈالر کے مساوی کمانے سے بھی محروم ہیں۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ اگست سن 2021 کے بعد سے ایک ملین کے قریب افغان شہری ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان حالات میں ایران کی سرحد کے قریب جنوب مغربی افغان شہر زرنج جو نمروز صوبے کا دارالحکومت بھی ہے، ملک چھوڑ کر ایران میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے شہریوں کا ایک بڑا ٹھکانا بن چکا ہے۔

پاکستان: پہلی مرتبہ افغان مہاجرین کے لیے سمارٹ کارڈز جاری

زرنج شہر انسانی اسمگلروں کا بڑا اڈا

زرنج شہر کے خستہ حال اور کم کرائے والے ہوٹلوں میں مہاجرت اختیار کرنے والے افغان شہریوں نے اگلی منزل تک روانگی سے قبل ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔

جنوبی ایران کے صوبے کرمان میں افغان مہاجرین کا ایک کیمپتصویر: LAILA MATAR/NRC/AFP

سرحد عبور کرنے کے منتظر افراد ہوٹلوں کے کمروں میں قالین پر سونے پر مجبور ہیں۔ ان کے چہرے مایوسی اور پریشانی سے عبارت دکھائی دیتے ہیں۔

اس شہر میں انسانی اسمگلروں نے بھی پریشان افراد سے منہ مانگی رقمیں بٹورنے کا سلسلہ گرم کر رکھا ہے اور مجبور افراد کو اپنی گرفت میں لینے میں مصروف ہیں۔ اب افغانستان میں شدید سرد موسم کی جگہ بہار کی آمد آمد ہے لیکن افغان شہری اس موسمی تبدیلی سے دور ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ماہ روزانہ کی بنیاد پر تین سو ٹرک ایران میں داخل ہو رہے تھے اور ہر ایک ٹرک پر بیس افغانی شہری سوار تھے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد پر چھ ہزار افراد مہاجرت اختیار کرتے ہوئے ایران پہنچ رہے تھے۔

افغان مہاجرین کا ایران پہنچنے کا کٹھن سفر

اس سفر پر بھی کئی گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ ایرانی سرحد پر دیوار کھڑی کی جا چکی ہے لیکن انسانی اسمگلرز جانتے ہیں کہ کس مقام پر ایرانی گارڈز کو رشوت دے کر افغان مہاجرین کو آگے کسی ایرانی شہر تک لے جانا ممکن ہے۔

انسانی اسمگلر کے ایک محفوظ ٹھکانے سے باہر جھانکتا ایک افغان شہریتصویر: Chris McGrath/Getty Images

بین الاقوامی مہاجرت کے ادارے کے مطابق ایران میں چونتیس لاکھ افغان مہاجر سن 2020 میں موجود تھے اور اب اس تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔

ایسا بھی بتایا جاتا ہے کہ طالبان ملک چھوڑنے والے افراد کی حوصلہ شکنی بھی کر رہے ہیں اور ملکی صورت حال بارے بین الاقوامی خبروں کو پراپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔

ع ح / ا ا (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں