1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: نئی درسی کتب میں بےشمار غلطیوں پر طلباء پریشان

Atif Baloch12 دسمبر 2012

افغانستان میں سرکاری اسکولوں کے نصاب میں اصلاحات کے منصوبے کے تحت شائع کی گئی درسی کتب میں شامل اعداد و شمار اور چھپائی کی بے شمارغلطیاں پائی گئی ہیں ۔

Hosain Sirat, DW's reporter
تصویر: DW

وسائل اور مالی تنگی کے شکار جنگ سے تباہ حال ملک کی وزارت تعلیم نے ان درسی کتب کی اشاعت کے لیے 91 ملین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی تھی۔

ایک افغان نجی خبررساں ایجنسی آئی پی ایس کے مطابق یہ درسی کتب سرکاری اسکولوں میں بڑے پیمانے پر تعلیمی نظام اور نصاب میں تبدیلی کے منصوبے کے تحت ترتیب دی گئی ہیں، ان کتابوں کے معیار کو یقینی بنانے کے لیےان کے مصنفین کو معقول معاوضہ ادا کیا گیا تاہم غیر معیاری نصابی کتب کی اشاعت نے اساتذہ اور طلبا کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سول سوسائٹی اور پارلیمان کے کچھ ارکان نے اسے وزارت تعلیم کی نااہلی اور بدعنوانی قرار دیا ہے۔ درسی کتب میں غلطیوں کی بھرمار پر کسی قسم کی ندامت کا اظہار کیے بغیر وزارت تعلیم کے حکام نے ان غلطیوں کو درست کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

دارالحکومت کابل کے ایک سرکاری اسکول کے استاد فاروق نخبن کہتے ہیں ' نئی درسی کتب میں سائنسی حقائق کی متعدد غلطیاں ہیں مثال کے طور پر مائیکروسکوپ کی ایجاد کی تاریخ دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کی کتابوں میں مختلف دی گئی ہے۔

اسی اسکول میں ریاضی کے ایک استاد کا کہنا ہے ' گیارھویں جماعت کے نصاب میں نیوٹن کے 'قوت کی اکائی' کو ناپنے کے اصولوں کو مکمل طور پرغلط لکھا گیا ہے'۔ ایک اور اسکول ٹیچر نادرہ سعیدی کے خیال میں ان کتابوں کے مصنفین نے نئے نصاب میں شامل سارا مواد چوری کر کے مرتب کیا ہے، حالانکہ وزارت تعلیم نے ان مصنفین کو ایران، اردن اور ترکی کے دورے بھی کرائے تاکہ وہ ان ملکوں کی درسی کتابوں سے استفادہ کر سکیں انہوں نے مزید کہا 'ان درسی کتب کا مواد دوسرے ملکوں کی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے ان کی مشقوں کو کوئی بھی حل نہیں کر سکتا'۔

افغان وزارت تعلیم کے حکام اس مسئلے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار نہیں کرتے تاہم تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ نئی درسی کتب کی تصنیف و تالیف کے شعبہ کے ڈائریکٹر جنرل عبدالواحد گلستانی کا کہنا ہے ' ہم غلطیوں کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی وجہ سے درسی کتب کے مواد پرسوال اٹھائے جائیں'۔ ان کے ڈپٹی ڈائریکٹراسد اللہ محقق کا کہنا ہے کہ دوسری اشاعت میں درسی کتب کو غلطیوں سے پاک کر دیا جائے گا۔

مغربی صوبے ہرات سے افغان پارلیمنٹ کے رکن خلیل احمد شاہدزادہ اس کو وزارت تعلیم کے حکام کی نا اہلی قرار دیتے ہیں 'ان درسی کتب اور نئے نصاب کی تیاری، مواد اوراشاعت کے لیے نہ تو پارلیمانی کمیشن اور نہ ہی مقامی اسکولوں کے اساتذہ سے مشاورت کی گئی'۔

افغانستان کے سرکاری اسکولوں کے نصاب میں اصلاحات کے منصوبے پر سال 2002 ء سے کام ہو رہا ہے اقوام متحدہ کے عالمی فنڈ برائے اطفال یونیسف کے افغانستان کےترجمان عزیز فروتان کے مطابق نصاب تعلیم میں اصلاحات کے اس منصوبے پر گزشتہ تین برسو‌ں میں دیگر لاکھوں ڈالرز سمیت افغانستان کے لیے یونیسف کے مجموعی بجٹ کا 10 فیصد بھی خرچ کیا گیا ہے.'

مبصرین کے خیال میں درسی کتب میں موجود یہ غلطیاں اس پسماندہ اور جنگ زدہ ملک کے تعلیمی نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ سال 2010 ء کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں خواندگی کی شرح صرف 30 فیصد ہے۔

Rh/Km (Ips)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں