1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: نماز جمعہ کے دوران خود کش حملہ، درجنوں ہلاک

3 اگست 2018

افغانستان کے صوبے پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں ایک مسجد پر کیے گئے خود کش حملے میں دو درجن سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ حملہ جمعے کی نماز کے دوران کیا گیا۔

Afghanistan Anschlag auf Polizei in Gardes
تصویر: Reuters

مشرقی افغانستان میں واقع ایک شیعہ مسجد پر کیے گئے خود کش حملے کے وقت نمازی جمعے کی نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ ہسپتال ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ ابھی تک ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہلاک شدگان کی تعداد پچیس بتائی ہے۔ اے پی نے ہلاکتوں کی تعداد صوبائی حکومت کے حوالے سے رپورٹ کی ہے۔ دوسری جانب نیوز ایجنسی روئٹرز نے کابل کے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے یہ تعداد دس بیان کی ہے جب کہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خود کش حملے میں بیس ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

مقامی ہسپتال نے زخمیوں کی تعداد ساٹھ بتائی ہے۔ گردیز کے محکمہ صحت کے انچارج ولایت خان احمد زئی نے کہا ہے کہ کئی زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ مسجد سے زخمیوں کو مقامی سول ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

خودکش حملے کے وقت مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھیتصویر: picture-alliance/Zumapress/Ahmadi

پکتیا صوبے کے گورنر کے ترجمان عبداللہ اسرت کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور تلاشی کے عمل سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا تھا۔ اسرت کے مطابق حملے کے وقت مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔

حملہ کا ہدف افغان صوبے پکتیا کے دارالحکومت گردیز کی شہری حدود میں واقع ایک شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد تھی۔ ابھی تک کسی عسکریت پسند گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ سکیورٹی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مشرقی افغان صوبوں میں سرگرم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اس حملے کے پس پردہ ہو سکتی ہے۔

امدادی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ مسجد کے اردگرد سکیورٹی فورسز نے حصار قائم کر لیا ہے۔ قریبی علاقوں میں مزید دہشت گردوں کی تلاش بھی شروع کر دی گئی ہے۔

’افغانستان ميں حالات بہتر ہوں گے تو واپس چلا جاؤں گا‘

01:33

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں