افغانستان: ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اعتراف، کیا مثبت بیان ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
17 نومبر 2017
افغانستان کے چیف ایگزیکیٹوعبداللہ عبداللہ نے اعتراف کیا ہے کہ افغان سرزمین پر پاکستان تحریک طالبان موجود ہے۔ اس اعتراف کو پاکستان میں تجزیہ نگار بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔
اشتہار
انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق افغان چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کے مدیران سے واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران دعویٰ کیا کہ پاکستانی طالبان افغانستان میں اُس عدم استحکام کی وجہ سے قدم جما سکے ہیں، جو افغان طالبان کی افغان ریاست کے خلاف جنگ کی وجہ سے پیدا ہوا۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ صورتِ حال کو واضح طور پر دیکھے اور جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں تعاون کرے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
کئی سیاسی مبصرین اس اعتراف کو مثبت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ بیان مثبت ہے کیونکہ اس سے پہلے تو افغان حکام اعتراف ہی نہیں کرتے تھے۔ صدر اشرف غنی جب ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں آئے تو انہوں نے پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا تھا اور اب عبداللہ عبداللہ کی طرف سے اس بات کا آنا خوش آئند ہے۔ اس اعتراف سے بات چیت اور تعاون کے لیے مزید گنجائش پیدا ہو گی۔ تاہم اس اعتراف کے ساتھ پاکستان یہ بھی توقع کرے گا کہ کابل حکومت ان پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی بڑا آپریشن کرے۔ حالیہ دنوں میں جو پاکستانی طالبان مارے گئے ہیں، وہ امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔ تو پاکستان کے خیال میں افغان حکومت کو بھی پاکستانی طالبان کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا چاہیے اور کابل حکومت بھی یہی چاہے گی کہ اسلام آباد افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں کرے۔‘‘
واضح رہے کابل انتظامیہ ایک طویل عرصے تک افغان سر زمین پر پاکستانی طالبان کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے اور یہ بھی کبھی تسلیم نہیں کیا کہ طالبان افغانستان کی سر زمین کو پاکستان پر حملے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا، ’’اس مسئلے کے علاوہ بھی پاکستان کے اور بھی کئی تحفظات ہیں۔ اسلام آباد کو اس پر اعتراض نہیں ہے کہ بھارت کو وہاں کوئی تعمیری کردار ملے لیکن پاکستان یہ نہیں چاہتا ہے افغان فوجی بھارت میں تربیت لیں یا نئی دہلی کو کوئی سیاسی کردار دیا جائے۔‘‘
عبداللہ عبداللہ ماضی میں شمالی اتحاد کے اہم رہنما رہے ہیں۔ اس اتحاد سے اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں کیونکہ پاکستان افغان طالبان کی حمایت کرتا تھا اور شمالی اتحاد کو بھارت نواز سمجھتا تھا۔
پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن بھی اس اعتراف کو مثبت قرار دیتے ہیں۔ اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ ایک مثبت بیان ہے۔ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتہا پسند کسی کے دوست نہیں ہیں۔ نہ صرف افغان حکومت کو ان پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہیں بلکہ ہمیں بھی حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف اقدامات کرنے چاہیں۔ ہمارے بیک وقت بھارت، ایران اور افغانستان سے تعلقات خراب ہیں جب کہ امریکا بھی ہم سے خوش نہیں۔ تو ہمیں دانشمندی کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے چاہییں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے حالیہ دورہ افغانستان کے بعد دونوں ممالک میں برف پگھل رہی ہے، ’’آپ دیکھیں کہ حال ہی میں جماعت احرار کے عسکریت پسندوں کو افغانستان میں نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ بھی جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور واشنگٹن نے جو پاکستان پر سخت پابندیاں لگانے کی بات کی تھی، اس کے حوالے سے بھی ان کا رویہ کچھ نرم ہو رہا ہے۔ تو ایسا لگتا ہے کہ امریکا خود بھی پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور افغان حکومت پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے معاملات بہتر کرے۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘‘