1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: پانچ اپریل کے انتخابات تک کا مشکل سفر

شامل شمس5 اپریل 2014

آج، ہفتے کے روز افغان عوام ملک کے تیسرے صدارتی انتخابات کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اس اہم جمہوری دور تک کا سفر افغانستان کے لیے قطعاً آسان نہیں رہا۔

Afghanistan Präsidentschaftswahlen 2014
تصویر: Reuters

سن 1979 افغانستان کے لیے ایک اہم ترین اور مشکل ترین سال تھا۔ یہ وہ سال تھا جب افغانستان میں سوویت افواج داخل ہوئی تھیں۔ اس وقت سے لے کر اب تک افغانستان سنبھل نہیں سکا ہے۔

1979 تا 1989: سوویت قبضہ

دسمبرسن 1979 میں عالمی سرد جنگ ایک نئے موڑ میں داخل ہوئی۔ سوویت یونین کی افواج افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کو سہارا دینے کے لیے ملک میں داخل ہو گئیں۔ تاہم ان افواج کو اسلام پسند ’مجاہدین‘ کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مغربی ممالک کی حمایت کے ساتھ قریباً ایک دہائی کے بعد سوویت یونین کو افغانستان میں مات ہوئی۔ سوویت افواج فروری 1989 میں افغانستان سے نکل گئیں۔

1992 تا 1996: خانہ جنگی

سن 1992 میں افغانستان کے کمیونسٹ صدر محمد نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی اور اقتدار کی ایسی رسہ کشی شروع ہوئی جو کئی برسوں تک جاری رہی۔ محض دو برسوں میں صرف دارالحکومت کابل میں ایک لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سن 1994 میں پڑوسی ملک پاکستان کی مدد سے طالبان کی تحریک نے سر اٹھانا شروع کیا۔

1996 تا 2001: طالبان کی حکومت

سن 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور ملک میں سخت اسلامی نظام نافذ کر دیا۔ اس دوران طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات گہرے ہوئے اور طالبان رہنما ملا عمر نے امریکا کو مطلوب القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو افغانستان میں پناہ دی۔

2001: مغربی مداخلت

امریکا میں گیارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہو گئی۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے باوجود ملک کے سابق حکمرانوں نے مسلح کارروائیاں شروع کر دیں اور مغربی افواج کا زیادہ تر وقت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں گزرا۔

2004: پہلے صدارتی انتخابات

سن 2004 میں پہلے صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ حامد کرزئی کو 55 فیصد ووٹ ملے اور وہ افغانستان کے صدر منتخب کر لیے گئے۔ ان انتخابات میں 70 فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

2009: کرزئی دوبارہ منتخب ہوئے

صدر کرزئی ایک مرتبہ پھر منتخب تو ہوئے مگر انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات نے ان کی ساکھ مجروح کر دی۔ طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے پر تشدد کارروائیاں جاری رہیں اور محض 33 فیصد رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے۔ کرزئی کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ کو 49 فیصد ووٹ ملے۔

2014: کرزئی دور کا اختتام

افغانستان ہفتہ پانچ اپریل کو پہلی مرتبہ جمہوری انتقال اقتدار کا مرحلہ طے کر رہا ہے۔ کرزئی آئینی قدغن کے باعث تیسری مرتبہ صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ امسال افغانستان سے نیٹو افواج بھی رخصت ہو رہی ہیں اور آئندہ صدر کے لیے ملک کی سلامتی کی صورت حال ایک بڑا امتحان ہوگی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں