افغانستان کے شہر قندھار میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ایئرپورٹ اسٹاف میں بطور گارڈ کام کرنے والی پانچ خواتین کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ بات افغان حکام کی طرف سے بتائی گئی ہے۔
اشتہار
افغانستان میں خواتین کے خلاف ہونے والوں حملوں کے سلسلے کے اس تازہ واقعے میں ان خواتین کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے کام کے لیے روانہ ہوئیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان میں گزشتہ 15 برس سے طالبان کی قیادت میں جاری بغاوت اور افراتفری سے خواتین بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ بم دھماکوں میں ہلاکتوں کے علاوہ وہاں خواتین کو عزت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان سب کی ایک وجہ ملک کے زیادہ تر حصوں میں سکیورٹی کی انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال اور بڑھتا ہوا تشدد بھی ہے۔
قندھار کے گورنر کے ترجمان سمیم خوپُل وَک کے مطابق ہلاک ہونے والی خواتین قندھار ایئرپورٹ پر خواتین مسافروں کی تلاشی وغیرہ کے عمل کی انچارج تھیں اور انہیں ایک پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی نے ملازمت دی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا مزید تھا، ’’ایک موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے آج صبح ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونے والی ان کی ویگن کا پیچھا کیا اور اس پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں یہ پانچوں خواتین اور ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گئے۔‘‘
ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ کی طرف سے قبول نہیں کی گئی تاہم حکومت کے خلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف طالبان ان خواتین کے بھی خلاف ہیں جو گھروں سے نکل کر کوئی کام کرتی ہیں۔
سال 2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغان خواتین کی طرف سے طویل جدوجہد کے بعد تعلیم اور کام کرنے کا حق حاصل کرنے کے حوالے انہیں کامیابیاں تو حاصل ہوئی ہیں تاہم روئٹرز کے مطابق اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ ملک میں خراب ہوتی ہوئی سکیورٹی کی صورتحال کے سبب صورتحال ایک بار پھر طالبان کے دور حکومت جیسی نہ ہو جائے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے بے انتہا دباؤ کے باوجود افغانستان آج بھی خواتین کے لیے ایک انتہائی مشکل ملک ہے۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.