افغانستان پر پاکستانی اور امریکی سلامتی مشیروں کی میٹنگ
جاوید اختر، نئی دہلی
30 جولائی 2021
پاکستان اور امریکا کے قومی سلامتی مشیرو ں نے افغانستان کی صور ت حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ واشنگٹن میں یہ میٹنگ ایسے وقت ہوئی ہے جب دنیا کی نگاہیں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی ہر پیش رفت پر لگی ہوئی ہے۔
معید یوسف، پاکستانی مشیر برائے قومی سلامتیتصویر: Getty Images/AFP/A. Wong
اشتہار
پاکستان کے قومی سلامتی مشیر معید یوسف نے اپنے امریکی ہم منصب جیک سلیوان سے واشنگٹن میں ملاقات کی ہے۔ یہ میٹنگ ایسے موقع پر ہوئی ہے جب امریکا کے افغانستان سے مکمل انخلا کا عمل آخری مراحل میں ہے اور طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستانی اور امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق دونوں ملکوں کے قومی سلامتی مشیروں نے افغانستان کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور افغان بحران کا مذاکرات کے ذریعہ سیاسی حل اور پُر تشدد کارروائیوں پر فوری روک لگانے کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں عہدیداروں کے درمیان واشنگٹن میں یہ دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل دونوں نے مارچ میں جنیوا میں ملاقات کی تھی۔
معید یوسف نے جمعہ 30 جولائی کو ایک ٹوئیٹ کر کے بتایاکہ امریکی ہم منصب سے ہونے والی یہ ملاقات دراصل جنیوا کی ملاقات کا تسلسل ہے۔
معید یوسف نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا، ”آج واشنگٹن میں مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان کے ساتھ مثبت فالو اپ ملاقات ہوئی جس میں ہماری جنیوا میں ہوئی ملاقات کے بعد ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور باہمی، علاقائی اور باہمی مفاد کے عالمی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔" انہوں نے مزید لکھا کہ فریقین نے 'پاک - امریکا دو طرفہ تعاون‘ کی رفتار مستحکم رکھنے پر اتفاق کیا۔
پاکستان کے قومی سلامتی مشیر نے اپنی ٹوئیٹ میں گوافغانستان کوئی ذکر نہیں کیا، البتہ امریکی قومی سلامتی مشیر نے بتایا کہ افغانستان کے سلسلے میں بھی بات چیت ہوئی۔
جیک سلیوان نے اپنے ٹوئٹ میں بتایا، ”میں نے آج علاقائی روابط، سکیورٹی اور باہمی تعاون کے دیگر معاملات پر مشورے کے لیے پاکستانی مشیر قومی سلامتی سے ملاقات کی۔ ہم نے افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں فوری کمی کی ضرورت اور تنازعے کے بات چیت کے ذریعے سیاسی تصفیے پر تبادلہ خیال کیا۔"
پاکستان افغانستان میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے
واضح رہے کہ افغانستان میں جاری حالیہ تشدد کی لہر پر امریکا مسلسل تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ واشنگٹن نے فریقین کو مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ البتہ طالبان اب تک افغانستان کے متعدد اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں اور افغان سکیورٹی فورسز کو جنگجووں کی پیش قدمی روکنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
گزشتہ دنوں بھارتی دارالحکومت دہلی میں اپنے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلِنکن نے ایک بھارتی روزنامے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا، ”پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ میں اہم کردار ہے جو اسے ادا کرنا ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ طالبان بذور طاقت اس ملک پر قابض نہ ہوں اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ یہ کردار ادا کرے گا۔"
خیال رہے کہ انٹونی بلِنکن اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ سے بھی ملاقات کرچکے ہیں۔
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔