افغانستان: چین، پاکستان اور بھارت میں اثر و رسوخ کی کشمکش
29 اگست 2021روسی اور برطانوی حکومتوں نے انیسویں صدی میں افغانستان پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگیں لڑی تھیں۔ سابقہ سوویت یونین اور امریکا بیسویں صدی میں افغانستان پر تسلط قائم کرنے کی لڑائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔
اب جب کہ افغانستان پر طالبان نے قریب قریب مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس خشکی سے گہِرے ملک کا داخلی سیاسی منظر اور خارجی تعلقات کی صورت حال بھی پوری طرح تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ نئی صورت حال میں افغانستان میں غیر معمولی نوعیت کا کردار ادا کرنے کے لیے بھارت، چین اور پاکستان سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
افغانستان: امریکا کو جواب دہ بنایا جائے، چین کا مطالبہ
پاکستان کا اثر و رسوخ
افغان صورت حال کو بین الاقوامی مبصرین 'گریٹ گیم‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کو اس جیو پولیٹیکل گیم میں مقامی طالبان کے علاوہ پاکستان، چین اور بھارت کو اہم مہرے قرار دے رہے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان پہلے ہی چین کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے اور نئی 'گریٹ گیم‘ میں اسلام آباد حکومت چینی سہارے سے زیادہ فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس تناظر میں خیال کیا جا رہا ہے کہ افغانسان کے اندرونی سیاسی و اقتصادی منظر پر بظاہر پاکستان کو قدرے زیادہ کنٹرول حاصل ہے۔
انٹرنیشنل مبصرین کے مطابق پاکستان کا افغان طالبان کے ساتھ تعلقات اب بھی بہت گہرے ہیں۔ اس تناظر میں اسلام آباد حکومت کو مسلسل اس الزام کا سامنا رہا ہے کہ یہ جنگی حالات میں طالبان کا مددگار تھا۔
اکتیس اگست کے بعد انخلا کی اجازت نہیں دیں گے، طالبان
وقت کی ضرورت
کابل پر طالبان کی کامیاب چڑھائی کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اسے 'غلامی کی زنجیروں‘ کے ٹوٹنے سے تعبیر کیا تھا۔ دوسری جانب افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے لیے طالبان کی مرکزی قیادت صلاح و مشورے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
طالبان کے اندرونی ذرائع نے پیر تیئیس اگست کو واضح کیا تھا کہ جب تک ایک بھی غیر ملکی فوجی افغانستان میں ہو گا نئی حکومت کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ حکومت سازی کی بحث کے حوالے سے کچھ میڈیا نے اپنے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اس عمل میں پاکستانی حکام بھی شامل ہیں۔
مہاجرت: طالبان کا خوف یا خوشحالی کی تمنا؟ ایک سکے کے دو رخ
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے افغانستان میں استحکام اور سیاسی مفاہمت کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کلیدی کردار افغان عوام ہی کو ادا کرنا ہے۔
چین کی اہمیت
ماضی میں چین نے کبھی افغانستان میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا لیکن اب وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ بیجنگ حکومت نے افغان طالبان کے لیے شاخِ زیتون تھام رکھی ہے۔ چین کو یہ معلوم ہے کہ اس کی صنعتی ترقی میں افغان سرزمین میں چھپے معدنیات کے خزانے کتنے اہم ہیں۔
دنیا کے دیگر کئی ممالک کی طرح چین بھی افغانستان میں پائے جانے والے لیتھیم دھات کے ذخیرے پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں چین کوہ قراقرم سے ایک تنگ گزرگاہ کو استعمال کرتے ہوئے چھوٹی مسافت کا راستہ پاکستانی سرزمین سے گزرتے ہوئے استعمال کر سکتا ہے۔
بھارت بھی موقع کی تلاش میں
بھارت دو حریف ملکوں یعنی پاکستان اور چین کے ساتھ پہلے ہی عسکری سینگ پھنسائے ہوئے ہے۔ سابقہ اشرف غنی حکومت کے دوران بھارت کا کردار بہت نمایاں محسوس کیا جاتا تھا اور سابقہ کابل حکومت میں کئی اہم منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر چکا ہے۔
بھارت میں افغانوں کے لیے مہاجرین کی حیثیت حاصل کرنا مشکل تر
اب نئی گریٹ گیم میں اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارتی ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی حکومت نے غیر ضروری طور پر تمام انڈے اشرف غنی حکومت کے گھونسلے میں رکھ دیے تھے اور اب حکومت کے ساتھ بھارتی منصوبہ بندی زمین پر گر چکی ہے۔ نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کابل کے سبھی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں ہے۔
چینی خدشات
چین کا کہنا ہے کہ وہ افغان طالبان تک اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں بیجنگ مخالف علیحدگی پسند مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کو تحفظ نہ دیے جانے کا مقصد رکھتا ہے۔ چین میں ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ افغان سرزمین علیحدگی پسندوں کا ٹھکانہ بن سکتی ہے۔
سیچوان یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی امور کے پروفیسر ژانگ لی کا خیال ہے کہ مجموعی صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستان کو بھارت پر کسی حد تک برتری حاصل ہے۔ ژانگ لی کے مطابق چین چاہے گا کہ طالبان ایک معتدل حکومت قائم کریں جو دہشت گری کی گنجائش نہ رکھے۔
طالبان کا افغانستان، چین کے لیے امیدیں بھی اور خطرات بھی
امریکا کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسند مشرقی ترکستان میں اسلامی تحریک کا وجود کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ژانگ لی کا کہنا ہے کہ چین کو موقع ملا ہے کہ وہ افغانستان میں اسٹریٹیجک تعلقات کو استوار کرے اور اس طرح وہ پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا تک مزید رسائی حاصل کر نے کی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔
ع ح/ ک م (روئٹرز)