1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'افغانستان کا سفارتی عملے کو واپس بلانے کا فیصلہ مایوس کن'

19 جولائی 2021

افغانستان نے اسلام آباد میں اپنے سفیر کی بیٹی کے اغوا کے واقعے کے بعد پورے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔ پاکستان نے اس اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

Pakistan Außenministerium in Islamabad
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/I. Sajid

پاکستانی وزارت خارجہ نے افغانستان کی جانب سے اسلام آباد سے اپنے پورے سفارتی عملے کے واپس بلانے کے فیصلے کو ''افسوس ناک اور مایوس کن قرار دیا ہے۔'' پاکستانی دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔'' 

سولہ جولائی جمعے کے روز اسلام آباد میں متعین افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی بیٹی سلسلہ علی خیل کو مبینہ طور پر بعض نا معلوم افراد کی جانب سے اغوا کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ افغان حکام نے اس وقت یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اغوا کاروں نے سلسلہ علی خیل پر تشدد کیا تھا۔

اس مبینہ اغوا کے واقعے کے بعد افغان حکام نے پہلے سفارتی عملے کی سکیورٹی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بہتر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔  تاہم اتوار کے روز افغان صدر اشرف غنی نے سفیر نجیب اللہ خیل سمیت اسلام آباد میں تعینات تمام سینیئر اسٹاف کو پاکستان چھوڑ دینے کی ہدایات جاری کیں۔ 

جب تک خطرہ نہیں ٹلتا سفارتی عملہ واپس نہیں ہوگا

افغانستان کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جب تک سکیورٹی کی صورت حال بہتر نہیں ہو جاتی اس وقت تک کے لیے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا گیا ہے اور جب تک سکیورٹی کے مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی اور قصورواروں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا اس وقت تک عملے کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ 

افغان وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''اس سے متعلق تمام امور کا جائزہ لینے اور کیس کی پیروی کے لیے جلد ہی ایک افغان وفد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ دورے کے جو بھی نتائج سامنے آئیں گے اس کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔''

افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کا کہنا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا اور پھر اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے ''قوم کی نفسیات مجروح ہو کر رہ گئی ہے۔'' 

عمران خان کا اولین دورہ افغانستان

01:32

This browser does not support the video element.

لیکن پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان حکومت کے اس فیصلے کو افسوس ناک بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام وزیر اعظم عمران خان کے احکامات کے بعد سے اس مبینہ اغوا اور حملے کی واقعے کی اعلی سطح پر تفتیش کر رہے ہیں۔ ''سفیر، ان کے کنبے اور پاکستان میں افغانستان کے قونصل خانے کے عملے کی سکیورٹی کو بھی مزید سخت کر دیا گیا ہے۔''

پاکستانی بیان میں کہا گیا کہ خارجہ سکریٹری نے افغان سفیر سے آج ہی ملاقات کی، اس حوالے سے جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں انہیں اس سے بھی مطلع کیا اور ہر طرح کے تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی تھی۔

اس سے قبل جمعے کے روز کابل نے کہا تھا کہ افغان سفیر کی 26 سالہ بیٹی سلسلہ علی خیل جب گھر واپس جا رہی تھیں تبھی انہیں اغوا کیا گیا اور انہیں اغوا کاروں نے شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ 

اغوا کی تردید

اس دوران پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا معاملہ ایک ''بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے''، جسے بھارت کے خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ (را) نے انجام دیا ہے۔

پاکستانی وزیر داخلہ نے ایک مقامی ٹی وی چینل سے بات چیت میں کہا کہ اب تک کی تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ''میں پوری قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بین الاقوامی ریکٹ ہے، ایک عالمی سازش اور یہ بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایک ایجنڈا ہے۔"

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

       

’ایسے کھیل پاکستانی اور افغان عوام کو قریب لا سکتے ہیں‘

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں