1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: کم پیداوار کے باعث افیون کی قیمتوں میں اضافہ

9 مئی 2012

افغانستان میں سکیورٹی فورسز نے افیون کی کاشت کے خلاف اپنی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ ایک پھپھوندی کی وجہ سے بھی افیون کی پیداوار کم ہو گئی ہے۔ یوں افیون کی قیمتوں میں اضافہ ہو جانے کا امکان ہے۔

تصویر: AP

یہ باتیں منگل کو افغانستان میں منشیات کے انسداد کے شعبے کے وزیر ضرار احمد مقبل عثمانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں اور افیون کی فصل کو لگنے والی پھپھوندی کی وجہ سے خطّے کے ممالک میں افیون کی طلب پوری نہیں پا رہی، جس کی وجہ سے نہ صرف افیون کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں بلکہ پیداوار کم ہونے سے کاشتکاروں کی طرف سے مزاحمت میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔

عثمانی کا کہنا تھا کہ افیون کی مہنگے داموں فروخت کے نتیجے میں کاشتکاروں کے لیے افیون کی کاشت اور بھی زیادہ پُرکشش ہوتی جا رہی ہے اور یوں حکومت نے بھی منشیات کی پیداوار اور تجارت کے خلاف اپنے اقدامات تیز تر کر دیے ہیں۔

قبضے میں لی جانے والی منشیات کو تلف کیا جا رہا ہےتصویر: DW

افغان دارالحکومت کابل میں انسداد منشیات وزارت کی عمارت پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں جبکہ عمارت کے اندر دیواروں پر ایسے پوسٹرز آویزاں کیے گئے ہیں، جن میں منشیات کے خلاف افغان حکومت کی جنگ کی عکاسی کی گئی ہے۔ روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے عثمانی نے کہا: ’’قیمتوں میں اس اضافے سے یقیناً ہم (حکومت) پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا۔ افیون کی کاشت کا رجحان بڑھتا چلا جائے گا، کاشتکار حکومتی اقدامات کے خلاف مزاحمت کریں گے، امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا اور افغان سکیورٹی فورسز کے ارکان کے ہلاک یا زخمی ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔‘‘

قیمتوں میں اضافے سے افیون کی کاشت افغان کاشتکاروں کے لیے اور بھی زیادہ پُرکش ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa

افغانستان دنیا بھر میں ہیروئن کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے مادے افیون کی 90 فیصد طلب کو پورا کرتا ہے۔ افیون کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی باغیوں کو اپنی جنگی کارروائیاں جاری رکھنے میں مدد دیتی ہے جبکہ اِس کی تجارت کرنے والی شخصیات اور گروہ ایران، پاکستان اور وسطی ایشیا کی سابق سوویت جمہوریاؤں کے راستے اسمگل کی جانے والی کئی ٹن منشیات کی مدد سے سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب سن 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی فوجی دستوں کا انخلاء عمل میں آئے گا تو وہ اپنے ساتھ وہ پیسہ اور فضائی طاقت بھی لے جائیں گے، جو اب تک منشیات کے خلاف جنگ میں بھی استعمال ہو رہی ہے۔ ایسے میں افغان حکومت کو منشیات کے خلاف اپنی جنگ کے لیے مزید وسائل درکار ہوں گے۔

aa/hk (reuters)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں