افغانستان کو عالمی برادری کی امداد کی ضرورت ہے، طالبان
19 ستمبر 2021
افغانستان کے شہر قندوز میں طالبان کے صوبائی ترجمان نے بین الاقوامی برادری سے اس جنگ زدہ ملک کے لیے امداد کی اپیل کی ہے تاکہ وہاں انسانی بحران پر قابو پایا جا سکے۔
اشتہار
طالبان کے صوبائی ترجمان مطیع اللہ روحانی کا کہنا ہے کہ جرمنی سمیت عالمی برادری افغانستان میں امداد ملک کے تعمیراتی منصوبوں کی صورت یا پھر کسی اور صورت میں بھی دے سکتی ہے۔ روحانی نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طالبان دہشت گرد نہیں ہیں۔ طالبان نے آٹھ اگست کو قندوز پر قبضہ کیا تھا اور اگست کے آخر میں امریکا کے تمام فوجی ملک سے انخلاء کر گئے تھے۔
روحانی نے افغانستان کی سابقہ 'کرپٹ حکومت‘ کی بیس سال تک مدد کرنے اور طالبان کی حکومت آنے کے بعد امداد روکنے پر عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ روحانی کا کہنا تھا،''طالبان افغانستان میں امن لائے ہیں، ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔‘‘
دنیا بھر میں حکومتیں اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ طالبان کے ساتھ کس طرح کام کیا جائے؟ انیس سو نوے کی دہائی میں طالبان نے اپنی سابقہ حکومت میں خواتین کی تعلیم اور ان کے گھروں سے باہر کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اب طالبان کی جانب سے یہ وعدے کیے گئے تھے کہ وہ ایک اعتدال پسند حکومت قائم کریں گے۔ تاہم حال ہی میں احتجاج کرنے والی خواتین اور صحافیوں پر تشدد اور وزارت خواتین کو ختم کر دینے جیسے اقدامات کے باعث انہیں عالمی برادری کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کو بھی مایوسی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس عبوری حکومت میں نہ خواتین کی نمائندگی ہے اور نہ ہی افغانستان کے مختلف نسلی اور اقلیتی گروہوں کی۔ طالبان کی اکثریت پشتون نسل ہے، جو کہ افغانستان کی نصف آبادی سے بھی کم ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کو طالبان کی مدد نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ وہ انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی نہ بنائیں۔ لیکن چین، روس اور پاکستان جیسے ممالک کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ ایک کثیر النسلی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔
ب ج، ا ا (ڈی پی اے)
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔