1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی اقتصادی ترقی میں ساتھ دیں گے، جرمن وزیر خارجہ

15 جون 2012

کابل میں افغانستان کے مستقبل کے موضوع پر جمعرات کو منعقدہ ایک روزہ کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹرویلے بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر اُنہوں نے کہا کہ جرمنی اقتصادی ترقی کے شعبے میں افغانستان کا ساتھ دے گا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

افغان دارالحکومت میں ’ہارٹ آف ایشیا‘ کے نام سے منعقدہ اس علاقائی کانفرنس میں مجموعی طور پر 30 ملکوں کے 42 وفود شریک ہوئے۔ شرکاء سے خطاب میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا کہ جرمنی خاص طور پر اقتصادی تعمیر نو میں مدد دیتے ہوئے افغانستان کے استحکام میں معاونت کرے گا۔ ویسٹر ویلے نے کہا کہ ’افغانستان کی سلامتی کا انحصار فیصلہ کن طور پر اس بات پر ہے کہ یہاں ایک اچھی اقتصادی ترقی ممکن ہو‘۔ اس کانفرنس میں شریک ممالک کے درمیان مستقبل کے اشتراکِ عمل کے ٹھوس موضوعات پر اتفاقِ رائے ہو گیا۔

گیڈو ویسٹر ویلے نے اپنے خطاب میں مزید کہا:’’جتنے اچھے طریقے سے افغانستان کی معیشت ترقی کرے گی، اتنا ہی نوجوانوں میں دہشت گردوں کی طرف مائل ہونے کا رجحان کم ہو گا۔‘‘ جرمن وزیر نے اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر اور ایوان ہائے تجارت کے درمیان تعاون کے سلسلے میں جرمن امداد کی پیشکش کی۔ واضح رہے کہ افغانستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور وہاں دَس سالہ جنگ اور امدادی پروگراموں کے بعد بھی معاشی ترقی کی رفتار بے حد سست ہے۔

’ہارٹ آف ایشیا‘ کے نام سے کابل کی یہ کانفرنس نومبر میں استنبول میں منعقدہ کانفرنس کے بعد خطّے کے ممالک کی اپنی نوعیت کی دوسری کانفرنس تھی، جس میں ایران اور پاکستان بھی شریک ہوئے۔ پاکستان پر الزام ہے کہ افغانستان میں حملوں میں ملوث باغی طالبان اُس کی سرزمین کو ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان نے نیٹو کے ایک فضائی حملے پر احتجاج کے طور پر بون میں منعقدہ افغانستان کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

جمعرات کی کانفرنس کے شرکاء کے درمیان مستقبل میں اپنے اشتراکِ عمل کے حوالے سے سات بنیادی نکات پر اتفاقِ رائے ہو گیا، جن میں دہشت گردی اور منشیات کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون کے ساتھ ساتھ تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں تعاون بھی شامل ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اپنے افغان ہم منصب زلمے رسول کے ساتھتصویر: AP

جرمن وفد کے ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بقول اُن کے ’غیر متوقع طور پر‘ نمایاں انداز میں خطّے میں جرمنی کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔ اس بات کو کانفرنس کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا کہ افغانستان میں حملوں میں ملوث طالبان کو پناہ دینے کے الزامات کا سامنا کرنے والا ملک بھی اس میں شریک ہوا۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں اس کانفرنس میں زیر بحث آنے والے موضوعات نئے نہیں تھے تاہم نئی بات یہ ہے کہ تمام شرکاء نے ایک ٹیم کے طور پر ان تمام مسائل کو حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

اس کانفرنس میں خطے کے جن پندرہ ملکوں نے شرکت کی، اُن میں میزبان افغانستان کے ساتھ ساتھ آذربائیجان، چین، بھارت، قزاقستان، کرغیزستان، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان شامل تھے۔ جن دیگر پندرہ ملکوں کے نمائندے اس کانفرنس میں شریک ہوئے، اُن میں سے زیادہ تر کا تعلق مغربی دنیا سے تھا۔

اسی کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزئی نے اعلان کیا کہ ستمبر 2011ء میں قتل ہونے والے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے بیٹے صلاح الدین ربانی عنقریب سعودی عرب اور پاکستان کا دورہ کریں گے۔

اس سلسلے کی تیسری کانفرنس آئندہ سال کے پہلے نصف حصے میں قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں منعقد ہو گی۔

aa/ng/ap,afp

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں