افغانستان کی امداد 2014ء کے بعد بھی جاری رکھنے کا عزم، بون کانفرنس
5 دسمبر 2011کانفرنس کا باضابطہ افتتاح کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا کہ بین الاقوامی برادری 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی اس جنگ زدہ ملک کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ انہوں نے کہا، ’’ہم افغان عوام کو واضح الفاظ میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ افغانستان اور اس کے عوام کو 2014ء کے بعد آئندہ دہائی کے لئے طویل المیعاد مدد کے لیے ایک واضح اور قابل اعتماد وابستگی کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے خطاب میں افغان صدر حامد کرزئی پر زور دیا کہ وہ ملک میں سیاسی اصلاحات اور مصالحت کے عمل کو تیز کریں۔ انہوں نے جنگ سے تباہ حال ملک کے ساتھ طویل المیعاد وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر نصف سے زائد افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریاں خود افغانوں کے ہاتھ میں ہوں گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ 2014ء تک افغان عوام کو اپنی سرزمین کی مکمل ذمہ داری سونپ دی جائے۔ ہمارا کام پھر بھی ختم نہیں ہو گا بلکہ ہماری یہ کوشش ہو گی کہ سکیورٹی فورسز کو تربیت دی جائے اور مدد فراہم کی جائے۔ تب ہم ترقیاتی تعاون کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گے تاکہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ اس وقت سیاسی اور مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے اور افغانستان کی اقتصادی تعمیر نو پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بین الاقوامی امداد کو جاری رکھنے کے لیے افغانستان میں سیاسی اصلاحات کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ’’صدر کرزئی نے جن اصلاحات کا خاکہ پیش کیا ہے وہ حوصلہ افزاء ہیں۔ ہم 2014ء تک شمولیتی اور منصفانہ صدارتی انتخابات کے ساتھ وابستگی پر صدر حامد کرزئی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔‘‘
ادھر افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ 2014ء میں نیٹو کے جنگی دستوں کے انخلاء کے بعد بھی ملک کو کم از کم دس برسوں کے لئے بین الاقوامی امداد کی ضرورت پڑے گی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک روز قبل افغان حکومت کو یقین دلایا تھا کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان کی تعمیر نو کے لیے عالمی ادارے کی طرف سے آئندہ بھی مالی مدد فراہم کی جاتی رہے گی۔
افغانستان کا ایک اہم پڑوسی ملک پاکستان 26 نومبر کو نیٹو کے مبینہ حملے کے بعد بطور احتجاج اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہا ہے تاہم کانفرنس کے شرکاء کو امید ہے کہ وہ اس کانفرنس میں پہنچنے والے اتفاق رائے کی پاسداری کرے گا۔
افغانستان کے مستقبل میں ایک اور اہم فریق ایران اس کانفرنس میں شریک ہے اور اس کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے کہا کہ ان کا ملک 2014ء کے بعد افغانستان میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی کے خلاف ہے۔
ادھر افغانستان میں طالبان باغیوں نے اس کانفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کانفرنس کا مقصد افغانستان کو قبضے کے شعلوں میں مزید دھکیلنا ہے اور اسے ایک میدان جنگ میں تبدیل کرنے کے علاوہ ہمسایہ ملکوں کے لیے ایک مستقل بھیانک خواب میں تبدیل کرنا ہے۔‘
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عصمت جبیں