افغانستان کی تعمیر نو میں پاکستان اور بھارت کا کردار
5 مئی 2011![جرمنی کی فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن](https://static.dw.com/image/6427293_800.webp)
ان مفصل نشستوں کے شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ بیرونی ممالک افغانستان میں امن عمل کے حصول میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ عمل خود افغانوں کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔
ان مباحثوں میں یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے بدعنوانی کے خاتمے سمیت کابل حکومت کو جو کام تفویض کیے گئے ہیں، ابھی اُن پر پوری طرح سے عملدرآمد ہونا باقی ہے۔
شرکاء نے بتایا کہ افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اتحادی اور افغان افواج کی موجودگی نمایاں طور پر بڑھ رہی ہے لیکن ابھی طالبان کو ان علاقوں میں دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے اور بہت کچھ کیا جانا پڑے گا۔
ان مباحثوں میں طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل پر بھی بات ہوئی اور کہا گیا کہ اصل طالبان کی شناخت مشکل ہونے کی وجہ سے مفاہمت کا یہ عمل بھی آسان ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی اِس کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان اپنی سرزمین پر طالبان کی پناہ گاہوں کے خلاف زیادہ مؤثر اقدامات نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے مفاہمت کا یہ عمل اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
ان مباحثوں میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت افغانستان کی تعمیر نو کے عمل میں مؤثر کردار اُسی صورت میں ادا کر سکتے ہیں، جب وہ اپنے باہمی امن مذاکرات کو زیادہ بھرپور طریقے سے آگے بڑھائیں۔ جہاں تک APTTA (افغان پاکستان ٹریڈ اینڈ ٹرانزٹ ایگریمنٹ) کا تعلق ہے، افغان نمائندوں کی نظر میں اِسے پاکستان کو خوش کرنے کے لیے افغانستان پر مسلط کیا گیا ہے۔ بھارت کو اس معاہدے سے الگ رکھا گیا ہے اور اگرچہ اس پر نومبر 2010ء میں دستخط ہو چکے ہیں، اس پر عملدرآمد ابھی تک شروع نہیں ہوا۔
افغانستان کی خواہش ہے کہ بھارت اُس کے ساتھ مکمل طور پر معمول کے تعلقات بحال کرے۔ ساتھ ہی افغان نمائندے یہ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک کے بیک وقت پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں۔
ان مباحثوں کے دوران ثقافتی اجتماعات، طلبا اور کاروباری شخصیات کے تبادلے اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دریائے کابل پر تینوں ملکوں کے مشترکہ ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے سمیت مختلف منصوبوں کا ذکر کیا گیا، جنہیں تینوں ملک مل کر آگے بڑھا سکتے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک