'افغانستان کی تعمیر نو کے اضافی مشن کو نیٹو پورا نہ کرسکا'
1 دسمبر 2021
نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ لیٹویا میں افغان مشن سے سیکھنے والے نتائج پر مرتب رپورٹ پر بحث کے لیے اکٹھے ہیں۔ نیٹو عسکری اتحاد اٹھارہ سال تک افغانستان میں موجود رہا۔
اشتہار
اس میٹنگ سے قبل نیٹو کے سکریٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ نیٹو افغانستان میں 'مشن کریپ' یا اپنے اصل اہداف سے ہٹ جانے کا شکار ہوا اور عسکری اتحاد کو افغانستان کی تعمیر نو میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اسٹولٹن برگ کے مطابق،'' نیٹو افغانستان میں اس لیے گیا تھا تاکہ د افغانستان کے ہشت گردوں کو ہم پر حملے کرنے سے روکا جاسکے لیکن اس کامیابی کو حاصل کرنے کے باوجود بین الاقوامی کمیونٹی نے ہمارے اصل ہدف کے علاوہ ہم پر ایک اور ذمہ داری ڈال دی تھی۔'' نیٹو کے سربراہ کے مطابق یہ ذمہ داری دہشتگردوں کو شکست دینے کے علاوہ ایک اضافی ذمہ داری تھی جو کہ '' ہم پوری نہ کر سکے۔''
نیٹو نے سن 2003 میں انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس نے افغانستان میں ذمہ داری سنبھالی تھی۔ سن 2001 میں امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے کا مقصد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ فراہم کرنے والے طالبان کو شکست دینا تھی۔ نیٹو مشن کا ایک اہم مقصد افغان آرمی کو منظم اور اس قابل بنانا تھا کہ وہ طالبان کے خلاف ملک کی سکیورٹی سنبھال سکیں۔ نیٹو نے تین لاکھ فوجیوں پر مشتمل افغان فوج کو عسکری تربیت دی لیکن یہ فورس مالی بدعنوانیوں کا شکار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ افغان فوج میں اہلکاروں کی اصل تعداد کا تعین کرنا آسان نہیں تھا۔ فوجیوں کی تعداد جتنی بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ اگست میں طالبان حملے کے سامنے یہ فوج ڈھیر ہو گئی تھی۔
اس سال اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کابل سے ایک لاکھ افراد کو پروازوں اور زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان سے نکالا گیا تھا۔ ہزاروں افغان شہری ملک چھوڑنے کی کوشش میں ناکام رہے۔
افغانستان کی سکیورٹی مہم میں صرف امریکا کے 2.3 ٹرلین ڈالر خرچ ہوئے۔ دو ہزار سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ ایک ہزار سے زائد ایسے افراد ہلاک ہوئے جو امریکا کے اتحادی کے طور پر کام کر رہے تھے۔ نیٹو اپنے آپریشنز میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کا باضابطہ ریکارڈ نہیں رکھا۔
طالبان کے راج ميں زندگی: داڑھی، برقعہ اور نماز
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام سے ايک طرف تو بين الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر ايک عام آدمی کی زندگی بالکل تبديل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کے افغانستان ميں زندگی کی جھلکياں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
برقعہ لازم نہيں مگر لازمی
افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
داڑھی کٹوانے پر پابندی
طالبان نے حکم جاری کيا ہے کہ حجام داڑھياں نہ کاٹيں۔ يہ قانون ابھی صوبہ ہلمند ميں نافذ کر ديا گيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس پر ملک گير سطح پر عملدرآمد ہو گا۔ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے سابقہ دور ميں بھی مردوں کے داڑھياں ترشوانے پر پابندی عائد تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan
سڑکوں اور بازاروں ميں طالبان کا راج
طالبان کی کابل اور ديگر حصوں پر چڑھائی کے فوری بعد افراتفری کا سماں تھا تاہم اب معاملات سنبھل گئے ہيں۔ بازاروں ميں گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ يہ کابل شہر کا پرانا حصہ ہے، جہاں خريداروں اور دکانداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ليکن ساتھ ہی ہر جگہ بندوقيں لٹکائے طالبان بھی پھرتے رہتے ہيں اور اگر کچھ بھی ان کی مرضی کے تحت نہ ہو، تو وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
خواتين کے حقوق کی صورتحال غير واضح
بيوٹی پارلرز کے باہر لگی تصاوير ہوں يا اشتہارات، طالبان کو اس طرح خواتين کی تصاوير بالکل قبول نہيں۔ ملک بھر سے ايسی تصاوير ہٹا يا چھپا دی گئی ہيں۔ افغانستان ميں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتين کے حقوق کی صورتحال بالخصوص غير واضح ہے۔ چند مظاہروں کے دوران خواتين پر تشدد بھی کيا گيا۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بچياں سيکنڈری اسکولوں و يونيورسٹيوں سے غائب
افغان طالبان نے پرائمری اسکولوں ميں تو لڑکيوں کو تعليم کی اجازت دے دی ہے مگر سيکنڈری اسکولوں میں بچياں ابھی تک جانا شروع نہیں ہوئیں ہيں۔ پرائمری اسکولوں ميں بھی لڑکوں اور لڑکيوں کو عليحدہ عليحدہ پردے کے ساتھ بٹھايا جاتا ہے۔ کافی تنقيد کے بعد طالبان نے چند روز قبل بيان جاری کيا تھا کہ سيکنڈری اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں لڑکيوں کی واپسی کے معاملے پر جلد فيصلہ کيا جائے گا۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
کھيل کے ميدانوں سے بھی لڑکياں غير حاضر
کرکٹ افغانستان ميں بھی مقبول ہے۔ اس تصوير ميں کابل کے چمن ہوزاری پارک ميں بچے کرکٹ کھيل رہے ہيں۔ خواتين کو کسی کھيل ميں شرکت کی اجازت نہيں۔ خواتين کھلاڑی وطن چھوڑ کر ديگر ملکوں ميں پناہ لے چکی ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بے روزگاری عروج پر
افغانستان کو شديد اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس ملک کے ستر فيصد اخراجات بيرونی امداد سے پورے ہوتے تھے۔ یہ اب معطل ہو چکے ہیں۔ ايسے ميں افراط زر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ يوميہ اجرت پر کام کرنے والے يہ مزدور بيکار بيٹھے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
نماز اور عبادت، زندگی کا اہم حصہ
جمعے کی نماز کا منظر۔ مسلمانوں کے ليے جمعہ اہم دن ہوتا ہے اور جمعے کی نماز کو بھی خصوصی اہميت حاصل ہے۔ اس تصوير ميں بچی بھی دکھائی دے رہی ہے، جو جوتے صاف کر کے روزگار کماتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ نمازی نماز ختم کريں اور اس سے اپنے جوتے صاف کرائيں اور وہ چار پيسے کما سکے۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
عام شہری پريشان، طالبان خوش
عام افغان شہری ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہے مگر طالبان اکثر لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔ اس تصوير ميں طالبان ايک اسپيڈ بوٹ ميں سیر کر کے خوش ہو رہے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
افغانستان میں ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس جنگ میں 46 ہزار سویلین ہلاک ہوئے۔ 69 ہزار فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے جب کہ 52 ہزار مخالف جنگجوؤں کی موت بھی ہوئی۔
اس مشن سے نتائج اخذ کرنے کی اصل ذمہ داری نیٹو کے نائب سکریٹری جنرل برائے آپریشنز جان مانزا کی ہے۔ مانزا کے مطابق اس رپورٹ میں کسی ووٹ کی ضرورت نہیں کیوں کہ ایسے دستاویز پر سب کا متفق ہونا ناممکن ہے۔