افغانستان کی جنگ اور پرویز مشرف سے نجی مشاورت
24 ستمبر 2009امریکہ کو اب بھی بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے مسلح حملوں کا خطرہ ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال القاعدہ نیٹ ورک کے نائب سربراہ ایمن الظواہری کا بدھ کے روز جاری کیا جانے والا وہ نیا ویڈیو پیغام بھی ہے جس میں انہوں نے امریکی صدر اوباما اور عرب رہنماؤں پر القاعدہ کے حملوں کی دھمکی دی ہے۔
الظواہری نے اپنے اس پیغام میں کہا ہے کہ باراک اوباما کی سیاست ان کے پیش رو جارج ڈبلیو بش کی پالیسی سے مختلف نہیں ہے۔ اس کے برعکس خود صدر اوباما کی کوشش ہے کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو ان کے پیش رو صدر کی افغانستان سے متعلق سیاست کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا ہو۔
افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کا موقف ہے کہ وہاں امریکہ کے مزید فوجی دستوں کی ضرورت ہے۔ اب امریکی دارالحکومت میں ملکی مسلح افواج اور نیٹو کے اعلیٰ ترین عہدیدار بھی جنرل میک کرسٹل کی اس رائے سے متفق ہیں کہ امریکہ کو اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجنا چاہیئں۔ اس کے باوجود امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اس مجوزہ لیکن اضافی فوجی تعیناتی کے حوالے سے اوباما انتظامیہ کا اگلا قدم کیا ہوگا۔
واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں تازہ ترین فوجی صورت حال کی سیاسی سطح پر وضاحت کے لئے امریکی ارکان کانگریس نے اب سابق پاکستان صدر پرویز مشرف کے ساتھ نجی تبادلہ خیال کا پروگرام بنایا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن اسٹیو بائر سابقہ فوجیوں سے متعلقہ امور کی کمیٹی میں شامل اعلیٰ ترین ریپبلکن رہنما ہیں۔ ان کے دفتر کے قانون سازی سے متعلقہ معاملات کے ڈائریکٹر کی ایک ای میل کے مطابق امریکی ارکان کانگریس اس مہینے کی 29 تاریخ کو پاکستانی فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کے ساتھ اس لئے نجی مشورے کریں گے کہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی بدلتی ہوئی حکمت عملی پر بحث کی جا سکے۔
خبر ایجنسی AFP کے مطابق اسٹیو بائر نے اس مشاورت کے لئے کئی دیگر اعلیٰ ریپبلکن ارکان کانگریس کو پرویز مشرف کے ساتھ اس مشاورت میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے۔ اس نجی تبادلہ خیال کے لئے ارکان کانگریس کو بھیجے گئے اسٹیو بائر کے پیغام میں افغانستان کی جنگ کے سلسلے میں جنرل میک کرسٹل کی تازہ ترین عسکری سفارشات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: ندیم گِل