افغانستان کی ممکنہ تنہائی: پاکستان کے لئے پیچیدگیاں
2 ستمبر 2021شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے بعد ملک میں کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی بین الاقوامی برادری افغان عوام کو چھوڑنے جا رہی ہے اور جنگ زدہ ملک میں کیا صورتحال ایک بار پھر سن 1990 کی دہائی کی طرف جارہی ہے، جب دنیا نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور اس کے پاکستان کے لئے بڑے خطرناک نتائج نکلے تھے۔
طالبان پر امریکا اور اتحادی ممالک کا کتنا اثر و رسوخ ہے؟
ایک برطانوی ٹی وی اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دنیا کو طالبان سے بات چیت کرنی چاہیے، ان سے روابط ختم کرنے نہیں چاہیے۔ دوسری جانب امریکہ اور کچھ مغربی ممالک اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے اور واشنگٹن نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ شاید اسلامک اسٹیٹ خراسان کے خلاف کوئی مشترکہ کوشش کی جائے۔
بین الاقوامی برادری تنہا چھوڑ رہی ہے
معروف صحافی و تجزیہ کار اور ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاءالدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکہ نے افغان حکومت کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں جبکہ بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اپنا ہاتھ افغانستان سے کھینچ لیا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے ادارے افغان طالبان کو پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو ان تمام باتوں سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں دلچسپی نہیں لے رہی اور وہ افغان طالبان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں گے۔‘‘
پاکستان کے لئے خطرناک نتائج
ضیاء الدین کے بقول افغان طالبان کا رویہ بھی ایسا ہے کہ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بالکل نہیں بدلے اور ان کے اس سخت رویہ کی وجہ سے بین الاقوامی برادری ان کی مدد نہیں کرے گی۔ "اس کے نتائج پاکستان کے لئے خطرناک ہوں گے۔ یہاں پر مذہبی تنظیمیں پہلے ہی افغان طالبان کی فتح پر جشن منا رہی ہیں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہاں پر مذہبی تنظیمیں افغان طالبان کے لیے چندہ اکٹھا کریں اور ان کی مالی مدد کریں جیسا کہ 90 کی دہائی میں الرشید ٹرسٹ اور دوسری تنظیموں نے کیا تھا۔ اس سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔‘‘
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر بین الاقوامی برادری افغان عوام کی مدد نہیں کرے گی، تو پھر افغانستان معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر جا سکتا ہے۔ ضیاءالدین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ "دیکھنا یہ ہوگا کہ چین اور روس کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ اگر چین اور روس نے افغان طالبان کی مدد کی اور افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑا، تو شاید پھر مغرب کی طرف سے تنہا چھوڑنے کے اس عمل کی اتنی اہمیت نہیں ہوگی لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پاکستان میں مہاجرین کا ایک سیلاب آجائے گا اور مالی پریشانیوں میں اضافہ ہو گا اس کے علاوہ پاکستان کا سماجی ڈھانچہ بھی تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘
چمن کی سرحدی گزر گاہ بند کی جا سکتی ہے، شیخ رشید
پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ افغانستان کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ بین الاقوامی برادری سے آرہا تھا اور اگر وہ یہ حصہ روک دے گی تو افغانستان میں معاشی تباہی آئے گی جس کے نتائج پورے خطے کے لیے اور دنیا کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ایسی صورت میں پوری دنیا سے جہادی ایک دفعہ پھر افغانستان میں آکر اپنے اڈے بنانا شروع کردیں گے اور مغرب اور خطے کے ممالک میں دہشت گردی کرین گے۔ کشمیر میں جہاد دوبارہ کھل سکتا ہے جن سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ ملک پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔‘‘
افغان اثاثوں کی بحالی ضروری
تجزیہ نگار ایوب ملک کا خیال ہے کہ اس تباہ کن صورت حال سے بچنے کے لیے امریکہ نے افغانستان کے جو نو بلین ڈالرز کے اثاثے منجمد کیے ہیں، ان کو مشروط طور پر طالبان کو آہستہ آہستہ واپس کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا، "پاکستان کو چاہیے کہ وہ طالبان کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں، خواتین کو کام کرنے اوریونیورسٹی لیول تک تعلیم حاصل کرنے کی اور بین الاقوامی این جی اوز کو کام کرنے کی اجازت دیں تا کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کی مدد کر سکے۔‘‘
امریکا کا داعش کے خلاف طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ
ایوب ملک کے مطابق اگر ایک خودمختار پارلیمنٹ میں یہ سارے مسائل زیر بحث آتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ ان کا کہنا تھا ''پاکستان کو چاہیے کہ اپنی سولو فلائٹ نہ کرے بلکہ ریجن کے ممالک سے مل کر افغانستان کے مسائل کے لئے کوئی حل نکالے۔‘‘