افغانستان کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے بھی نیچے
7 مئی 2018
افغانستان کی انتیس ملین سے زائد کی مجموعی آبادی میں سے نصف سے زائد شہری دو ہزار سولہ اور دو ہزار سترہ کے مالی سال کے دوران خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ یہ بات ایک نئی سرکاری رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔
اشتہار
افغان دارالحکومت کابل سے پیر سات مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس رپورٹ کو افغانستان میں حالات زندگی کے سروے (Afghanistan Living Conditions Survey) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ملک کے مرکزی محکمہ شماریات اور یورپی یونین نے مل کر تیار کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق خط غربت سے نیچے رہتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور قریب پندرہ ملین افغان باشندے اپنی تعداد میں ملک کی مجموعی آبادی کے پچپن فیصد کے برابر بنتے ہیں۔ دو ہزار گیارہ اور دو ہزار بارہ کے مالی سال میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افغان شہریوں کی تعداد ملکی آبادی کا اڑتیس فیصد بنتی تھی، جس میں نئی رپورٹ کے مطابق اب سترہ فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے اور اب غربت کے شکار افغان شہریوں کی تعداد اکثریت میں ہو گئی ہے۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
ورلڈ بینک کے افغانستان کے لیے ڈائریکٹر کے مطابق اس رپورٹ کا ایک خاص اور باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ یہ افغانستان میں سلامتی کی ذمے داریاں سن دو ہزار چودہ میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے ملکی فورسز کو منتقل ہونے کے بعد پہلی بار مرتب کی گئی ہے اور یہ حالات کے کہیں زیادہ پریشان کن رخ اختیار کر جانے کی نشاندہی کرتی ہے۔
افغانستان کے لیے ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر شوبھم چوہدری کے مطابق آبادی کے اتنے بڑے حصے کا انتہائی غربت کا شکار ہونا اس لیے بھی باعث تشویش اور فوری اصلاح کا متقاضی ہے کیونکہ جنگ زدہ افغانستان کی آبادی کا اڑتالیس فیصد یا قریب نصف حصہ ایسا ہے، جو پندرہ برس سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔
م م / ا ب ا / ڈی پی اے
قالین سازی کی افغان صنعت مشکل کا شکار
افغانستان کی کارپٹ بنانے کی قدیم صنعت طالبان کے ساتھ جنگ اور پاکستان کی جانب سے سرحدی نگرانی بڑھانے کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔ گزشتہ ایک سال میں قالینوں کی فروخت میں لگ بھگ پچاس فیصد کمی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان قالین خوبصورت اور آرام دہ
افغان قالین دنیا بھر میں خوبصورتی اور اعلیٰ معیار کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اب بھی افغان اقتصادیات میں کارپٹس کی برآمدات ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی میں یہ برآمدات ستائس فیصد سے کم ہو کر چھ فیصد رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
قالین کی صنعت متاثر
جنگ، مفلسی اور ذرائع آمد ورفت کی کمی نے قالین کی صنعت کو متاثر کیا ہے جس کی تاریخ پچیس سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اپنی والدہ کو افغانستان سے قالین بھجوایا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
قالین ساز فیکٹری
کابل کی ایک قالین ساز فیکٹری میں خواتین اون بنتی ہیں اور مرد اون کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اس فیکٹری کے مینیجر دلجام منان کا کہنا ہے،’’ ہم نے بہت سے خریداروں کو بلایا ہے لیکن وہ نہیں آتے کیوں کہ وہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/M. Ismail
تشدد کے واقعات میں اضافہ
افغستان میں حالیہ کچھ عرصے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سن دوہزار سولہ اور سترہ کے درمیان افغانستان کی رجسٹرڈ برآمدات میں قالینوں کی ایکسپورٹ چوتھے نمبر پر تھی اور ان کی کل مالیت 38 ملین ڈالر تھی۔ ان میں سے 85 فیصد قالین پاکستان کو برآمد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی
پہلے افغانستان میں قالین کی برآمدات 89.5 ملین ڈالر تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ اندرونی طور پر بھی افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی۔ بہت کم افغان شہری ستر سے ڈھائی سو ڈالر فی سکوائر میٹر قالین خرید نے کی سکت رکھتے ہیں۔ آٹھ برس قبل جب افغانستان میں نسبتاً امن تھا تب قالین کی برآمدات 150 ملین ڈالر تھی۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
پاکستانی تاجر
افغان کارپٹس، نامی ایک دکان کے مالک پرویز حسین کا کہنا ہے، ’’پاکستانی تاجر افغانستان سے کارپٹ خرید کر دس سے پندرہ فیصد کماتے ہوئے ان قالیوں کو برآمد کر دیتے ہیں۔‘‘ حسین کے بقول افغانستان میں قالینوں کو دھونے کا طریقہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کارپٹ یہاں آتے ہیں، دھلتے ہیں اور برآمد کر دیے جاتے ہیں۔ حسین کی رائے میں بہت سے افغان تاجر پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور یہاں سے قالین درآمد کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
پاکستان کے ساتھ تعلقات
پاکستان اور اس کی بندرگاہوں پر انحصار، سرحد پر بڑھتے کنٹرول اور دہشت گردوں کی در اندازی کی وجہ سے افغان تاجر مشکلات کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس طورخم بارڈر چالیس دن تک بند رہا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے
کابل میں دکاندار احسان کا کہنا ہے کہ اب کابل میں بہت کم غیر ملکی نظر آتے ہیں۔ اس کی دکان میں 50 سال پرانے قالین بھی دستیاب ہیں۔ احسان کا کہنا ہے کہ پہلے ایک دن میں وہ پانچ قالین فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے لیکن اب بہت مشکل ہے کیوں کہ یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔
ب ج/ ع ا، روئٹرز