افغانستان کی پہلی خاتون میئر کے لیے جرمنی کا لوتھر پرائز
16 اپریل 2023
ماضی میں افغانستان کی پہلی خاتون میئر کے طور پر فرائض انجام دینے والی سیاستدان اور حقوق نسواں کی سرکردہ کارکن ظریفہ غفاری کو جرمنی کا لوتھر پرائز دے دیا گیا ہے۔ انہیں اس انعام کے ساتھ دس ہزار یورو کی نقد رقم بھی دی گئی۔
اشتہار
جرمن شہر ایرفرٹ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ظریفہ غفاری کو یہ انعام افغانستان کی پہلی خاتون میئر کے طور پر عوام کے لیے ان کی خدمات اور افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا۔
غفاری کو یہ پرائز جرمنی کے لُوتھر شہروں کی تنظیم کی طرف سے ہفتہ 15 اپریل کی شام چھوٹے سے شہر شمالکالڈن کے ولہیلمزبرگ نامی قلعے میں منعقدہ ایک تقریب میں دیا گیا۔ انہیں اس منفرد اعزاز کے لیے اسی شہر نے نامزد کیا تھا۔
میدان وردک کی میئر
ظریفہ غفاری کو لوتھر پرائز دیے جانے کی تقریب میں جرمن لوتھر سٹیز ایسوسی ایشن کی طرف سے کہا گیا کہ غفاری نے 2018ء سے لے کر 2021ء تک افغان صوبے میدان وردک میں ملک کی اولین خاتون میئر کے طور پر اپنے فرائض انجام دیے تھے۔
اس دوران انہوں نے انتہائی قدامت پسند افغان معاشرے میں مقامی حکومتی سربراہ کے طور پر اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے ساتھ ساتھ افغان لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی انتھک محنت کی۔
میئر کے طور پر فرائض کی تین سالہ مدت میں ظریفہ غفاری نے میدان وردک میں دیگر بہت سے منفرد اقدامات کرنے کے علاوہ ایک ایسی مارکیٹ کا قیام بھی یقینی بنایا، جہاں صرف خواتین خریداری کے لیے جاتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے خواتین کے لیے روزگار کے کئی جدت پسندانہ مواقع بھی پیدا کیے۔
جان بچانے کے لیے افغانستان سے ترک وطن
اگست 2021ء میں ہندوکش کی اس ریاست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آ جانے کے بعد ظریفہ غفاری اور ان کا خاندان اپنی جان بچانے کے لیے ترک وطن پر مجبور ہو گیا اور بعد ازاں اس خاندان نے جرمنی میں پناہ لے لی تھی۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
10 تصاویر1 | 10
غفاری کو جو لوتھر پرائز دیا گیا، وہ The Fearless Word ایوارڈ کہلاتا ہے اور ہر دو سال بعد دیا جاتا ہے۔ یہ انعام جرمن لوتھر سٹیز ایسوسی ایشن کہلانے والی تنظیم دیتی ہے۔
اس تنظیم میں پورے جرمنی سے ایسے 16 شہر اور قصبے شامل ہیں، جہاں جرمن ماہر مذہبیات اور مسیحیت میں اصلاحات کی بنیاد رکھنے والی تاریخ ساز شخصیت مارٹن لوتھر نے اپنی زندگی میں رہائش اختیار کی تھی اور کام بھی کیا تھا۔ 1483ء میں پیدا ہونے والے مارٹن لوتھر کا انتقال 1546ء میں ہوا تھا۔
یہ ایوارڈ ایسی شخصیات کو دیا جاتا ہے، جو حکمرانوں اور بااختیار حلقوں کی طرف سے لاحق خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سماجی جرأت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کسی بھی سماجی شعبے میں انصاف کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے عملی جدوجہد بھی کرتی ہیں۔