افغانستان کے بارے میں کوئی ’اچانک‘ فیصلہ نہیں کریں گے، اوباما
15 مارچ 2012
حالیہ کچھ عرصے میں افغانستان میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج پر افغانستان سے جلد تر انخلاء کے لیے دباؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم امریکا کے دورے پر آئے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کے بارے میں جلد بازی میں فیصلہ لے گی۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار تیرہ میں افغانستان میں نیٹو افواج کا کردار افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت کی حد تک رہ جائے گا اور طے شدہ پروگرام کے تحت دو ہزار چودہ ہی میں بین الاقوامی افواج کا افغانستان سے انخلاء عمل میں آئے گا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت ہم موجودہ پلان میں اچانک کوئی تبدیلی کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
اوباما اور کیمرون نے اس بات پر اصرار کیا کہ دونوں ممالک کی افواج کی جانب سے القاعدہ کو شکست دینے کے لیے قربانیوں نے دونوں ملکوں کے خلاف دہشت گردی کے منصوبوں کا تدارک کیا ہے۔
اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے افغانستان کی صورت حال کو ’بہت مشکل‘ قرار دیا تاہم کہا کہ افغانستان پہلے سے بہتر حالت میں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ جو کام ہم دو ہزار چودہ کے اختتام تک کرنا چاہتے ہیں وہ قابل عمل اور قابل حصول ہے۔ ہم اس مشن کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ افغانستان اب القاعدہ کی ایسی پناہ گاہ نہیں بنے گا جہاں سے وہ ہم پر حملے کر سکے۔‘‘
امریکی صدر نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’ہم اس مشن کو مکمل کریں گے، اور ایسا ہم ذمہ داری کے ساتھ کریں گے۔‘‘ امریکی صدر نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ دس سال کی اس جنگ سے لوگ تھک چکے ہیں اور لوگوں نے اس جنگ کے دوران بڑی قربانیاں دی ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق