افغانستان کے حالات مزید خراب ہوں گے، امریکی انٹیلیجنس چیف
12 مئی 2017امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعہ بارہ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کوٹس نے ہندوکش کی ریاست افغانستان میں مستقبل کے ممکنہ حالات کی جو تصویر کشی کی، انہیں کم امیدی سے عبارت اندازوں کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔
عشروں سے بدامنی اور خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان میں پچھلے کافی عرصے سے اسلام کے نام پر عسکریت پسندی کرنے والے جنگجو دوبارہ کافی فعال ہو چکے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ یہ منصوبے بھی بنا رہی ہے کہ اسے ممکنہ طور پر افغانستان میں اپنے مزید فوجی تعینات کرنا چاہییں۔
لیکن جنگ زدہ افغانستان ہی کے بارے میں وہاں کی موجودہ اور مستقبل قریب کی سیاسی اور سکیورٹی صورت حال کے بارے میں نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ڈَین کوٹس (Dan Coats) نے امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کی ایک سماعت کے دوران کہا، ’’کابل حکومت کے لیے امریکا اور اس کے ساتھی ممالک کی طرف سے فوجی امداد میں مناسب اضافے کے باوجود 2018ء میں اس ملک میں سیاسی اور سکیورٹی صورت حال تقریباﹰ یقینی طور پر آج کے مقابلے میں مزید خراب ہو جائے گی۔‘‘
ڈَین کوٹس نے امریکی سلامتی کو درپیش خطرات کے بارے میں ملکی قانون سازوں کو اپنے سالانہ اندازوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا، ’’افغانستان نے اگر اپنے ہاں مسلح مزاحمت اور عسکریت پسندی کو محدود نہ کیا یا پھر طالبان کے ساتھ کوئی امن معاہدہ طے نہ کیا، تو اسے بیرونی (فوجی) امداد پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کرنا پڑے گی۔‘‘
مغربی ممالک افغانستان میں مزید فوجی تعینات کرنے سے گریزاں
امریکا اور نیٹو اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجیں گے یا نہیں؟
قندوز پر ایک بار پھر طالبان کے قبضے کا شدید خطرہ
ہندوکش کی اس ریاست میں امریکا کی سربراہی میں فرائض انجام دینے والی افواج کو وہاں لڑتے ہوئے اب قریب 16 برس ہو چکے ہیں اور یہ جنگ پہلے ہی امریکا کی طرف سے آج تک لڑی جانے والی طویل ترین جنگ بھی بن چکی ہے۔ لیکن کابل اور واشنگٹن میں حکومتوں کو تشویش یہ ہے کہ افغانستان میں موجودہ صورت حال ابھی بھی مجموعی حالات کے تسلسل اور ایک طرح کے جمود کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اسی دوران امریکا کی دفاعی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ جنرل وِنسینٹ سٹیوارٹ نے بھی کہا ہے کہ اگر افغانستان کی صورت حال کا تدارک نہ کیا گیا، تو اس طول اختیار کر چکے تنازعے میں امریکی سربراہی میں کام کرنے والے عسکری اتحاد کو حاصل ہونے والی نازک کامیابیوں کے ضائع ہونے کا بھی خطرہ ہو گا۔
جنرل وِنسینٹ نے کہا، ’’اگر ہم کوئی تبدیلی نہ لائے، تو صورت حال مزید ابتر ہوتی جائے گی۔ یوں ہم ان تمام کامیابیوں سے بھی محروم ہو جائیں گے، جن کے لیے ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے بے تحاشا کوششیں کیں۔‘‘
اس سماعت کے دوران ڈَین کوٹس نے سینیٹ کے ارکان کو مزید بتایا، ’’طالبان ممکنہ طور پر مزید کامیابیاں حاصل کرتے رہیں گے، خاص طور پر افغانستان کے دیہی علاقوں میں۔ کابل حکومت کی سکیورٹی فورسز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوششیں بھی اس سے کم ثمرآور رہی ہیں، جتنی کہ امید کی گئی تھی۔‘‘