پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے بقول افغانستان کی تازہ صورت حال سے امریکا، یورپ، پاکستان اور خود طالبان کو بھی کئی طرح کے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاہم طالبان کو دیوار سے لگا دینے سے تباہی آئے گی۔
اشتہار
افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد ایسے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اب یہ جنگجو حکومت سازی کے لیے کیا اقدامات کریں گے اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو کس طرح یقینی بنائیں گے۔
اگرچہ طالبان رہنما بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ تمام افغان باشندوں کے حقوق کو یقینی بنائیں گے اور ساتھ ہی امریکا سمیت عالمی برادری سے پرامن تعلقات بھی قائم کریں گے لیکن ابھی تک ان کے یہ بیانات شک کی نگاہ سے ہی دیکھے جا رہے ہیں۔
افغانستان پر ان جنگجوؤں کے قبضے کے نتیجے میں عالمی برادری نے کابل حکومت کی مالی امداد بھی روک دی ہے جبکہ ایسے شکوک بھی گہرے ہیں کہ ملک چلانے کی خاطر یہ جنگجو آیا ایک ایسی قومی حکومت بنا سکیں گے، جس میں تمام نسلی اور سیاسی گروپوں کو شامل کیا جائے گا؟
انہی سوالات کے جوابات کی خاطر ڈی ڈبلیو نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے گفتگو کی، جس میں ایک ٹیکنوکریٹ اور منجھے ہوئے سفارت کار کے طور پر قصوری نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مکالمت اور مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہی بات کئی مغربی رہنما بھی کر چکے ہیں جبکہ اس خطے میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے اثر و رسوخ کو پنپنے سے روکنے کی خاطر واشنگٹن حکومت بھی طالبان کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ اس خصوصی انٹرویو میں خورشید محمود قصوری نے کہا، ''ہم پسند کریں یا نہ کریں، لیکن طالبان ایک حقیقت ہیں اور افغانستان اب ان کے کنٹرول میں ہے۔ بغیر کسی مزاحمت کے کابل کو فتح کر لینا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ ایسا کبھی بھی مقامی حمایت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ ان زمینی حقائق کے پیش نظر اب ضروری ہے کہ دنیا طالبان سے کُٹی نہ کرے بلکہ ان کو انگیج کرے۔‘‘
سن 1996 میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان عسکریت پسندوں نے شدید انتقامی کارروائیاں کی تھیں جبکہ ملک میں سخت اسلامی قوانین بھی رائج کر دیے تھے، جن کی وجہ سے معاشرتی سطح پر بالخصوص اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی پامالیوں کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے۔ دوسری طرف کئی ماہرین کے مطابق اب وقت بدل چکا ہے اور افغان طالبان اپنی ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
اسی تناظر میں سابق پاکستانی وزیر خارجہ قصوری کا کہنا ہے، ''اگر طالبان کو دیوار سے لگا دیا گیا، افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، تو پھر یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو کر دنیا بھر کے دہشت گرد گروہوں کا مرکز بن جائے گا۔ اس سے ایک طرف افغانستان اور اس پورے خطے میں تباہی آئے گی تو دوسری طرف امریکا اور یورپ سمیت عالمی برادری بھی اس کے برے اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔‘‘
پاکستان کے لیے سبق
لاہور میں قائم پاکستان فورم نامی تھنک ٹینک کے سربراہ خورشید قصوری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے موجودہ حالات میں سبق یہ ہے کہ وہ افغانستان میں بے جا مداخلت سے گریز کرے اور کسی خاص جہادی گروپ کو پروموٹ کرنے کی کوشش میں طالبان کو ناراض نہ کرے۔
اسّی سالہ قصوری کے مطابق پاکستان کو افغانستان سے متعلق غیر محتاط بیان بازی سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے پالیسی بیانات کے اجرا کا سلسلہ صرف ملکی دفتر خارجہ کے ترجمان، وزیر خارجہ اور وزیر اعظم تک محدود کر دیا جانا چاہیے۔
سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں سن 2002 تا 2007ء پاکستان کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہنے والے قصوری کے بقول، ''اگر پاکستان کو افغانستان کو کوئی مشورہ دینا بھی ہو، تو بہتر یہی ہے کہ سفارتی ذرائع اختیار کیے جائیں، نہ کہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جائے۔‘‘
قصوری نے کہا، ''افغان ایک غیور قوم ہیں، وہ طفیلی ریاست بننا پسند نہیں کریں گے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنی خود مختاری اور آزادی کے لیے کئی ایسے اقدامات کیے تھے، جو پاکستان کو پسند نہیں تھے۔ ہمیں دوبارہ اس راستے پر نہیں جانا چاہیے۔‘‘
طالبان کے لیے سبق کیا؟
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ تازہ حالات میں طالبان کے لیے سیکھنے کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہوں نے کسی ملبے پر حکومت کرنا ہے یا جیتے جاگتے انسانوں پر۔ افغانستان کو ملبے کا ڈھیر بن جانے سے بچانے کے لیے طالبان کو عالمی تعاون کی ضرورت ہو گی۔
قصوری کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کو کثیرالنسلی افغانستان میں غیر پشتون قوموں (ازبک، تاجک اور دیگر نسلوں کے باشندوں) کو ساتھ لے کر چلنا اور اتفاق رائے سے حکومت کا اعلان جلد کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ اب تک طالبان کی طرف سے اچھے اعلانات سامنے آئے ہیں۔ اب ان اعلانات پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
کیا طالبان پنجشیر فتح کرسکیں گے؟
03:00
سابق وزیر خارجہ قصوری نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ طالبان کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ اب افغانستان بہت بدل چکا ہے، اب پرانی پالیسیاں نہیں چل سکیں گی۔ پچھلے بیس سالوں میں افغانستان میں ایک نئی نسل سامنے آ چکی ہے، وہاں بچیاں پڑھ لکھ گئی ہیں، میڈیا نے تقویت حاصل کی ہے، اگر ملک میں استحکام لانا ہے، تو پھر انتہا پسندانہ سوچ سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے۔
اشتہار
امریکا اور یورپ کے لیے سبق کیا؟
خورشید محمود قصوری سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری کے لیے سبق یہ ہے کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی غلطیوں کا درست تجزیہ کرے اور یہ جاننے کی کوشش بھی کرے کہ بیس سال تک افغانستان میں رہنے اور اپنے طور پر وہاں سب کچھ کرنے کے باوجود طالبان اقتدار میں کیسے آ گئے؟
قصوری نے کہا، ''پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر الزام اس کے سر تھوپ دینا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ پشتون اکثریت والے ملک میں سستی جنگ کی خواہش کے پیش نظر شمالی اتحاد کے ذریعے حملے کروانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ وارلارڈز پر انحصار کر کے ان کو عوام کی حق تلفی کرنے کی کھلی چھٹی دینا، کرپشن سے آنکھیں بند کر کے افغان فوج سے توقع رکھنا کہ وہ مقابلہ کر لے گی، بالکل غلط تھا۔‘‘
طالبان کے کنٹرول میں آ جانے کے بعدسے افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد کی بندش کے بارے میں قصوری کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کے لیے سب سے اہم سبق یہ ہے کہ طالبان کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کابل کے لیے نو ارب ڈالر امریکا نے منجمد کر دیے اور چار سو ملین ڈالر آئی ایم ایف نے بھی روک لیے، اس صورت میں اگر طالبان فیل ہوتے ہیں تو پھر پورا ملک علاقہ غیر اور منشیات اور دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا۔
قصوری کے مطابق اس صورتحال کے برے اثرات سے مغرب بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ اس لیے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ افغانستان کے لیے معاشی اور ترقیاتی وسائل فراہم کر کے اسے دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے بچایا جائے۔
عالمی برادری بالخصوص امریکا کا کہنا ہے کہ طالبان کے بیانات کے بجائے ان کو ان کے اقدامات کی روشنی میں جانچا جائے گا۔ کچھ افغان شہری حلقوں میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ 'عام معافی‘ اور انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کے وعدے کے باوجود ان جنگجوؤں کے اب تک کے صرف بیانات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم خورشید قصوری کہتے ہیں کہ اس ضمن میں کافی زیادہ ذمہ داری پاکستان، چین اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک اور علاقائی طاقتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ راتوں رات کابل میں پہلے جیسے حالات نظر آنا شروع ہو جائیں گے، تو یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے۔ بہتری کا عمل آہستہ آہستہ ہی آگے بڑھے گا۔ اس کے علاوہ طالبان سے مغربی جمہوریت کے کسی ماڈل کی تقلید کی توقع بھی نامناسب ہو گی۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
10 تصاویر1 | 10
پاکستان: افغانستان اور مغرب کے مابین پل؟
ایک سوال کے جواب میں خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس صلاحیت ہے اور وہ سفارت کاری کے ذریعے افغانستان اور مغرب کے درمیان مفاہمت کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جس طرح کابل سے غیر ملکیوں کے انخلا میں مدد دی، افغان مسئلے پر قطر نے جس عمدگی سے اپنے کردار کو منوایا، ان مثالوں کو بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے متعلق اگلی میٹنگ کے لیے (کئی اہم ملکوں کو نظر انداز کر کے) نیٹو ممالک کے ساتھ صرف قطر کو دعوت دی گئی ہے۔
افغانستان اور بھارت کے تعلقات کا مستقبل
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ اگر پاکستان نے کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا، تو بھارت بھی دباؤ میں آ جائے گا اور نہیں چاہے گا کہ پاکستان کو افغانستان میں کھلا راستہ دستیاب ہو۔ اس لیے بھارت نے بھی طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قصوری کے بقول، ''میری اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں بھارت کی طرف سے پہلا قدم اٹھا بھی لیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کابل میں نئی حکومت بھارت کو یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ افغانستان کو استعمال کر کے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ اگر افغانستان بھارت کے ساتھ تجارت کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس پر کابل کو ڈکٹیشن دینے سے گریز کرے۔‘‘
خطے میں امریکی کردار ختم؟
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ امریکا ایک بڑا ملک ہے اور اس کی عالمی اہمیت ہے۔ افغانستان میں حالیہ امریکی بمباری نے بھی واشنگٹن کی جنگی صلاحیت کی ایک جھلک دنیا کو دکھا دی ہے۔
امریکا کے رول کے خاتمے کی بات قبل از وقت ہے۔ ابھی چند دن پہلے سی آئی اے کے سربراہ طالبان سے مل کر گئے ہیں، طالبان نے بھی امریکیوں کے انخلا کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان کوئی 'ورکنگ ریلیشن شپ‘ قائم ہو جائے۔
قصوری کے بقول اس خطے میں امریکا کا رول بظاہر ختم تو نہیں ہو گا البتہ افغانستان میں اس کا جو انٹیلیجنس نیٹ ورک تھا، اسے دوبارہ بنانے میں بہت وقت لگے گا۔
انتہا پسندی نے قبائلی خواتین کو کیسے متاثر کیا؟
افغان سرحد سے متصل پاکستانی ضلع مہمند کی رہائشی پچپن سالہ خاتون بصوالیحہ جنگجوؤں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو چکی ہیں۔ اب خطرہ ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں قدم جما سکتے ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سخت اور کٹھن زندگی
پاکستانی قبائلی علاقوں کی خواتین کے لیے زندگی مشکل ہی ہوتی ہے۔ ضلع مہمند کے گاؤں غلنی کی باسی پچپن سالہ بصوالیحہ کی زندگی اس وقت مزید اجیرن ہو گئی، جب سن 2009 میں اس کا بیٹا اور ایک برس بعد اس کا شوہر جنگجوؤں کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔ سن2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا یہ علاقہ بھی طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
ہر طرف سے حملے
بصوالیحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا تئیس سالہ بیٹا مقامی امن کمیٹی کے ایما پر ہلاک کیا گیا۔ طالبان مخالف مقامی جنگجو گروپ کو شک ہو گیا تھا کہ وہ طالبان کو تعاون فراہم کر رہا تھا۔ پاکستانی فوج کے عسکری آپریشن کے بعد اس علاقے میں قیام امن کی امید ہوئی تھی لیکن اب افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے باعث اس سرحدی علاقے میں طالبان کی واپسی کا خطرہ ہے۔
تصویر: dapd
پرتشدد دور
بصوالیحہ کا شوہر عبدالغفران چھ دسمبر سن2010 کو ایک سرکاری عمارت میں ہوئے دوہرے خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنے بیٹے کی ہلاکت کے لیے سرکاری طور پر ملنے والی امدادی رقم لینے کی خاطر گیا تھا۔ بصوالیحہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں کسی محرم مرد کی عدم موجودگی عورت کی زندگی انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
امید نہیں ٹوٹی
اب بصوالیحہ انتہائی مشکل سے اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ ان کے گاؤں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ وہاں گیس، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں بھی مسائل ہیں۔ تاہم بصوالیحہ اب تک پرعزم ہیں۔ انہوں نے سرکاری امداد لینا بھی چھوڑ دی تھی، جو دس ہزار روپے ماہانا بنتی تھی۔ تاہم سن 2014 میں حکومت نے یہ امدادی سلسلہ بھی روک دیا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سلائی کڑھائی سے آمدنی
بصوالیحہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچیاں اچھی تعلیم حاصل کریں۔ ڈی ڈؓبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود کو بے کار تصور کرنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس معاشرے میں اپنی بقا کھو دیں گی۔ اگرچہ وہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ مہمند ایجنسی کی کسی بھی دکان پر بغیر مرد کے نہیں جا سکتیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
محرم مرد کے بغیر کچھ نہیں
بصوالیحہ کے بقول شوہر کی موت کے بعد وہ تندور چلانے لگیں جہاں ان کی چھوٹی بیٹیاں روٹیاں فروخت کرتی تھیں لیکن اب وہ بالغ ہو چکی ہیں اور اس علاقے میں لڑکیاں اس طرح آزادانہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس لیے انہوں نے اب یہ کام چھوڑ کر سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ محرم مرد کی عدم موجودگی کے باعث وہ بازار میں یہ مصنوعات فروخت نہیں کر سکتیں، اس لیے وہ انہیں مقامی مردوں کو کم داموں پر فروخت کرتی ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
مزید تشدد کا خطرہ؟
پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں، جو اسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ بصوالیحہ کے برادر نسبتی عبدالرزاق کے بقول انہیں اب تک یاد ہے، جب ان کے بھائی حملوں میں مارے گئے تھے۔ وہ دعا گو ہیں کہ مستقبل میں ایسا دور دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے، جب طالبان کا تشدد عروج پر تھا۔ تاہم ان کے بقول اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔