1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے دشمن پاکستان کے دوست نہیں ہوسکتے، نواز شریف

شادی خان سیف، کابل12 مئی 2015

پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے که افغانستان کے دشمن پاکستان کے دوست نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے یه بات آج دوپہر کابل میں افغان صدر محمد اشرف غنی کے ہمراه وفود کی شکل میں اجلاس اور علیحده ملاقات کے بعد کہی۔

تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

نواز شریف اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراه، جس میں فوجی سربراه جنرل راحیل شریف، انٹیلی جنس چیف جنرل رضوان اختر، مشیر خارجه سرتاج عزیز، وزیر خزانه اسحاق ڈار اور دیگر شامل تهے، آج صبح افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے۔

افغان حکومت کی جانب سے وزیر خارجه صلاح الدین ربانی نے ہوائی اڈے پر پاکستانی وفد کا سرخ قالین پر استقبال کیا۔ بعد میں پاکستانی وفد کو کابل کے تاریخی صدارتی محل میں ظہرانه دیا گیا، جس کے بعد ملاقاتوں اور اجلاس کا اہتمام کیا گیا تها۔

افغان حکومت کی جانب سے پاکستانی وفد کے ہم منصب اجلاس میں شریک ہوئے، جس میں فوجی سربراه جنرل شیر محمد کریمی، انٹیلیجنس چیف رحمت الله نبیل، وزیر خزانه اقلیل حکیمی، قومی سلامتی کے مشير محمد حنيف اتمر، مشیر خارجه حکمت کرزئی اور دیگر موجود تهے۔

افغانستان اور پاکستان کے مابین تاریخی روابط اور مشترک ثقافتی و مذہبی اقدار کی نشاندہی کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا که دنیا میں شاید ہی کسی اور جگه دو ممالک کے مابین اتنی باتیں مشترک ہوں جتنی پاکستان اور افغانستان کے مابین ہیں۔

انہوں نے کہا که صدر اشرف غنی کے ساتھ طے پایا ہے که مشکلات کا مل کر مقابله کیا جائے گا۔

ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیاتصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

انہوں نے واضح الفاظ میں کہا که پاکستان افغانستان میں، افغانوں کی قیادت میں امن منصوبے کا حامی ہے اور اس ضمن میں ہر ممکن کوشش کرے گا۔ واضح رہے که طالبان اور افغان حکومت کے نمائندون کے مابین رواں ماه قطر کے دارالحکومت دوحہ میں غیر رسمی بیٹهک ہوئی تهی۔ کہا جارہا ہے که اس نشست کو ممکن بنانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا اور اگلے ماه متحده عرب امارات میں ایک اور ایسی نشست ممکن بنانے کے لیے بهی رابطے کیے جارہے ہیں۔

نواز شریف نے افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا که ان کی حکومت عدم مداخلت کی پالیسی پر کارفرما ہے۔

انہوں نے افغانستان میں پاکستان حکومت کی جانب سے جاری ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے اور انہیں جلد پایهء تکمیل تک پہنچانے کا بهی یقین دلایا۔

افغان صدر اشرف غنی، جنہیں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے والی نئی پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے، نے اس موقع پر کہا که دہشت گردی کی کوئی سرحد اور شناخت نہیں ہوتی اور یه نه صرف افغانستان بلکه پاکستان اور بھارت سمیت تمام خطے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

ان کے بقول دونوں پڑوسی ممالک کو مل کر عوامی خواہشات کے مطابق اس مشکل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ’’افغانستان ایشیا کا مرکز و محور ہے، پاکستان اور افغانستان کے مابین اقتصادی تعاون اور مفاہمت کے بغیر ایشیا میں امن و استحکام ممکن نہیں۔ ‘‘

اشرف غنی نے کہا که افغانستان کے دشمن پاکستان کے دشمن اور اسی طرح پاکستان کے دشمن دراصل افغانستان کے دشمن ہیں۔

افغان میڈیا میں پاکستانی حکام کے اس غیر معمولی سفر کو نمایاں کوریج دی گئی۔ تجزیه نگار وحید مژده البته اس ضمن میں بہت زیاده امیدیں وابسته کرنے کے خلاف ہیں۔ ان کے بقول گزشته برس جب صدر غنی نے پاکستان کا دوره کیا تها تو انہیں یقین دلایا گیا تھا که سرحد پار دہشت گردی کا سلسله رواں سال مارچ تک رک جائے گا تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

کئی دیگر مبصرین افغانستان کے شمالی اور مغربی صوبوں میں بڑهتی ہوئی دہشت گردی کو بهی کو شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کا نتیجه قرار دیتے ہیں، جس باعث مبینه طورپر سینکڑوں چیچن اور ازبک دہشت گرد فرار ہوکر قندوز اور فاریاب صوبوں پر حمله آور ہوئے ہیں۔

اندرون خانه اشرف غنی پر خاصا دباؤ ہے که وه پاکستان کو خوش کرنے کے لیے خطرناک حد تک آگے بڑه گئے ہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی کے سابقه ترجمان ایمل فیضی نے اپنے ایک تبصرے میں صدر غنی پر تنقید کرتے ہوئے لکها ہے که افغان صدر دیرینه دوست بھارت کو چهوڑ کر پاکستان کے ساته دوستی بڑها رہے ہیں، جس نے کبهی بهی افغانستان کے ساتھ صدق دل سے تعاون نہیں کیا۔

بعض مبصرين اور بين الاقوامی تهنک ٹينک جيساکه چيٹم ہاؤس اس حوالے سے مثبت رائے رکهتے ہیں۔ چيٹم ہاوس نے اپنی تازه رپورٹ پاکستان اور افغانستان کے مابين تعلقات ميں بہتری اور بالخصوص چين کے کردار کو خطے کے ليے خوش آئند قرار ديا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں