افغانستان کے دن بہ دن خراب ہوتے معاشی حالات اور عوام بے بس
19 نومبر 2025
اقوام متحدہ کی قیادت میں مرتب کی گئی ایک مشترکہ جائزہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے زلزلہ زدہ مشرقی صوبوں میں مکانات، اسکولوں اور بنیادی سہولیات کی بحالی کے لیے 128.8 ملین ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ڈونر ممالک نے امداد میں کمی کر دی ہے اور تعمیر نو کے منصوبوں کو ''بھاری کٹوتی‘‘ کا سامنا ہے۔
ورلڈ بینک، یورپی یونین اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے تیار کی گئی یہ مشترکہ جائزہ رپورٹ کنڑ، ننگرہار اور لغمان صوبوں میں تین سالہ منصوبہ پیش کرتی ہے، جس میں گھروں، صحت کے مراکز، پانی کے نظام اور کھیتوں کی بحالی شامل ہیں۔
بین الاقوامی امداد میں کمی
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب افغانستان کو رواں سال 3.2 بلین ڈالر اور 2026 میں بھی تقریباً اتنی ہی امداد کی ضرورت ہے، مگر اب تک اس کا نصف سے بھی کم حصہ مہیا کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے نمائندے اسٹیفن روڈریگز نے بتایا، ''زلزلہ زدہ کمیونٹیز پہلے ہی خشک سالی، لاکھوں مہاجرین کی واپسی اور معاشی تنزلی کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔ اب ان میں مزید کسی جھٹکے کو برداشت کرنے کی گنجائش تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘‘
اس صورت حال پر طالبان انتظامیہ اور قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمانوں نے تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہ دیا۔
رپورٹ کے مطابق 10 اضلاع میں زلزلوں سے 86.6 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ 56 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوئے، 6200 سے زیادہ گھر مکمل طور پر تباہ اور 2000 شدید متاثر ہوئے۔ صحت کے 22 مراکز اور 80 اسکولوں کو بھی نقصان پہنچا۔ مکمل بحالی پر لاگت کا تخمینہ 128.8 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ رہائش
سب سے بڑا چیلنج رہائش ہے، جس کی بحالی کے لیے 54.9 ملین ڈالر درکار ہیں۔ تعلیم کے شعبے کو 14.9 ملین ڈالر، پانی، آبپاشی، زرعی زمینوں اور دیہی سڑکوں کے لیے مزید فنڈز کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ہزاروں خاندانوں کو ہنگامی خیمے اور نقد امداد فراہم کر چکی ہیں لیکن تقریباً 10 ہزار خاندانوں کو اب بھی فوری پناہ کی ضرورت ہے اور تقریباﹰ آٹھ ہزار افراد بے گھر ہیں۔
روڈریگز نے کہا کہ فوری امداد سے دباؤ کچھ کم ضرور ہوا ہے مگر ''یہ امداد طویل المدتی سرمایہ کاری کے بغیر خاندانوں کو محض زندہ رہنے کی حالت سے آگے نہیں لے جا سکتی۔‘‘
مہاجرین کی واپسی اور افغانستان پر بڑھتا بوجھ
روڈریگز کے مطابق رواں سال ایک بڑے ڈونر نے 80 سے 90 ملین ڈالر کی امداد روک دی، جس کی وجہ سے 2025 کے پہلے نصف حصے میں 400 سے زائد صحت کے مراکز بند ہو گئے۔ انہوں نے ڈونر ملک یا ادارے کا نام ظاہر نہیں کیا۔
یو این ڈی پی اگلے سال انفراسٹرکچر، روزگار اور نجی شعبے کی مدد کے لیے 150 ملین ڈالر کی اپیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں واپس آنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے 43 ملین ڈالر شامل ہیں لیکن روڈریگز کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ ڈونرز کتنا پیسہ دیں گے؟
افغانستان نے 2021 کے بعد دنیا کے سب سے بڑے جبری انخلا میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ روڈریگز کے مطابق 43 سے 45 لاکھ افغان مہاجرین واپس آ چکے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایران میں 25 لاکھ اور پاکستان میں 17 لاکھ مزید افغان موجود ہیں، جو موجودہ پالیسیوں کے تحت واپس آ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ''واپس آنے والوں کو جذب کرنے کی صلاحیت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔‘‘
88 فیصد واپس آنے والے مہاجرین پر قرض ہے اور صرف چار فیصد کے پاس تنخواہ والی کوئی نوکری ہے جبکہ ہر سال چار لاکھ نوجوان ملکی افرادی قوت میں شامل ہو رہے ہیں۔ روڈریگز نے خبردار کیا کہ تعمیر نو میں تاخیر سے سماجی تناؤ بڑھے گا اور مزید ہجرت ہو گی۔
ادارت: مقبول ملک