1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے ساتھ ہیں، جرمن چانسلر میرکل

عاطف بلوچ6 دسمبر 2014

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے عہد ظاہر کیا ہے کہ برلن حکومت نیٹو فوجی مشن کے بعد بھی افغان صدر اشرف غنی اور ان کی یونٹی حکومت کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

تصویر: Reuters/H. Hanschke

رواں برس کے اختتام تک مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا تیرہ برس تک جاری رہنے والا فوجی مشن مکمل ہو رہا ہے جبکہ ساڑھے تین لاکھ افغان سکیورٹی اہلکار ملک کے متعدد علاقوں میں سلامتی کی ذمہ داری پہلے ہی سنبھال چکے ہیں۔ ناقدین کے بقول غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان سکیورٹٰی فورسز کو پہلی مرتبہ طالبان باغیوں کے حملوں کا براہ راست مقابلہ کرنا، ایک چیلنج سے کم نہ ہو گا۔

امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے کہا کہ نیٹو فوجی مشن کے بعد بھی افغانستان میں تقریبا بارہ ہزار غیر ملکی فوجی تعینات رکھے جائیں گے، جو وہاں افغان فوج کی مشاورت اور تربیت کے کام پر مامور ہوں گے۔

اس تناظر میں جمعے کے دن جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برلن میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان بالخصوص شمالی افغانستان میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری جرمنی پر عائد ہوتی ہے۔ میرکل کے بقول افغان سیکورٹی فورسز کو طویل المدتی بنیادوں تربیت فراہم کرنے کے علاوہ ترقیاتی امداد بھی دی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی خوشحالی کے لیے دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارتی امور بھی اہمیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کا جرمنی میں پرتپاک استقبال کیا گیاتصویر: Reuters/H. Hanschke

جمعے کے دن ہی جرمن پارلیمنٹ نے اس بات پر اتفاق رائے کیا کہ 2015ء میں بھی افغانستان میں ساڑھے آٹھ سو جرمن فوجی تعینات رہیں گے، جن کا بنیادی مقصد افغان دستوں کی تربیت ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ آئندہ برس افغانستان میں تعینات غیر ملکی فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے امریکا کے بعد جرمنی دوسرا سب سے بڑا ملک ہو گا۔ جرمن پارلیمنٹ میں یہ اتفاق بھی ہوا کہ برلن حکومت ترقیاتی مد میں افغانستان کو سالانہ بنیادوں پر 430 ملین ڈالر فراہم کرے گی۔

نیٹو اتحادی مشن کے تحت ایک وقت میں افغانستان میں جرمن فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار بھی رہی تھی۔ اس طویل جنگ میں 55 جرمن فوجی ہلاک بھی ہوئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تیرہ سالہ اس طویل عسکری مہم میں 2014 کا سال خونریز ترین قرار دیا جا رہا ہے اور ایک ایسے وقت میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جب نیٹو فوجی مشن ختم ہو رہا ہے۔

مشترکہ پریس کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ان کی حکومت چین سمیت دیگرعلاقائی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ مذاکراتی عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان کی کوشش ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن اور خوشحالی کے لیے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے حق میں ہیں اور ان کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں لانے سے امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔

اشرف غنی نے مزید کہا کہ وہ چین کی کوششوں کا انتہائی اہم سمجھتے ہیں کیونکہ بیجنگ حکومت کا پاکستان پر اثرورسوخ ہے۔ غنی کے بقول، ’’چین ایک ذمہ دار فریق کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے۔ علاقائی سطح پر قیام امن کے حوالے سے چین کا کردار اس لیے بھی اہم ہو گا کیونکہ اُسے بھی دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں