افغانستان کے صدارتی انتخابات پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
17 ستمبر 2009عبوری نتائج کے مطابق حامد کرزئی کو تقریباً پچپن فیصد ووٹوں کے ساتھ فاتح قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات بھی بدستور عائد کئے جا رہے ہیں۔
اگرچہ الیکشن کمیشن نے عبوری طور پر کرزئی کو انتخابات کا فاتح قرار دیا ہے لیکن آیا حتمی نتائج بھی یہی رہیں گے، یہ بات ابھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن برائے شکایات، جس میں کہ اقوامِ متحدہ بھی شریک ہے، انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے اُن الزامات پر کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے، جو یورپی یونین کے مبصرین کی جانب سے عائد کئے جا رہے ہیں۔ اگر یہ کمیشن اُتنی بڑی تعداد میں ووٹوں کو منسوخ کر دے، جو کہ انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد کو ضروری بنا دیں تو سارے امکانات ایک بار پھر کھلے ہوں گے۔
لیکن ایسا نہ بھی ہو اور یہی عبوری نتائج حتمی قرار دے دئے جائیں تو کرزئی کی دوسری مدتِ صدارت منفی ا ثرات سے عبارت ہو گی، نہ صرف انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے باعث بلکہ اُن کے دَورِ صدارت کی پہلی مدت کے منفی میزانیے کے باعث بھی۔
یہی کرزئی چند سال پہلے افغانستان کے لئے امید کی علامت تھے لیکن اُن کی حکومت انتہا درجے کی نااہل ثابت ہوئی ہے۔ افغانستان، جو سن 2005ء میں ناکام ریاستوں کی فہرست میں گیارہویں نمبر پر تھا، اِس سال کی فہرست میں دنیا کا ساتواں ناکام ترین ملک قرار پایا ہے۔ اِس ملک میں غربت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، چالیس فیصد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔
افغانستان میں امن و امان اور معیشت کی خراب صورتِ حال ہرگز کسی طرح کے اتفاقات کا نتیجہ نہیں۔ ہندو کُش میں نظر آنے والا سماجی اور سیاسی بحران کرزئی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اُن کی پالیسیوں میں شروع ہی سے ایک ایسے افغانستان کی ضروریات کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا تھا، جسے خانہ جنگی اور حملوں کے بعد کے حالات سے نمٹنا تھا۔ کرزئی کی تمام تر کوششیں محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے تھیں اور اِسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئےانہوں نے مسلمان بنیاد پرستوں، اپنا اعتبار کھو چکے جنگی سرداروں اور معیشت اور سماج کی ایسی بااثر شخصیات کے ساتھ سمجھوتے کئے، جو کسی اصول ضابطے کو نہیں مانتیں۔
کرزئی کے دوبارہ انتخاب کی توثیق کا مطلب اُن پالیسیوں کا تسلسل ہو گا، جنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اُن کی دوسری مدتِ صدارت ملک میں جمہوری امن عمل کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو گی۔ بین الاقوامی برادری کو بھی تب ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہو گا: یہی کرزئی ایک وقت مغربی دُنیا کے پسندیدہ رہنما تھے لیکن اب وہ ملک کے سربراہ کے طور پر خود ایک مسئلے کی شکل اختیار کر جائیں گے۔ یہ مسئلہ بدستور موجود ہے کہ اِس ملک میں امن کیسے قائم ہو گا۔
دریں اثناء بین الاقوامی برادری افغانستان میں حالات کو بہتر بنانے کے لئے بہت کچھ داؤ پر لگا چکی ہے، پیسہ بھی، افرادی قوت بھی اور اپنی ساکھ بھی۔ افغانستان میں ناکامیوں پر پہلے ہی مایوسی کی شکار عالمی برادری کی مایوسی میں کرزئی کی مشکوک انتخابی کامیابی کی صورت میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا۔ مغربی دنیا افغانستان سے اپنے دستوں کے انخلاء کی جس پالیسی پر آج کل غور کر رہی ہے، وہ صرف افغانستان میں سارا انتظام سنبھالنے کی اہلیت رکھنے والی سیکیورٹی فورسز کی تشکیل تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ کرزئی کے ساتھ یا اُن کے بغیر بھی افغانستان میں جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے بھی ضروری اور درست حکمتِ عملی اختیار کی جانی چاہیے۔
رپورٹ: ڈاکٹر سعید موسیٰ صمیمی/ امجد علی
ادارت: ندیم گِل