افغانستان کی سرزمین سے باہر طالبان کے مجوزہ رابطہ دفتر کی خبر سب سے پہلے لندن کے اخبار ’ٹائمز‘ نے جاری کی تھی تاہم بجائے خود یہ خبر نئی نہیں ہے۔
اشتہار
طالبان کے دفتر کے لیے ایک ممکنہ مقام کی حیثیت سے خلیجی عرب ریاست قطر کا ذکر اِس سال کے اوائل میں ہی سننے میں آ گیا تھا۔ ’ٹائمز‘ نے امریکی سفارت کاروں کے حوالے سے خبر دی تھی کہ ’یہ کوئی سفارت خانہ یا قونصل خانہ نہیں بلکہ محض ایک ہیڈ کوارٹر ہو گا، جہاں طالبان کے ساتھ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت میں معاملات طے کیے جائیں گے‘۔ مزید یہ کہ طالبان کو اپنے اِس دفتر کو افغانستان میں اپنی لڑائی کے لیے فنڈز جمع کرنے کی خاطر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
ایک غیر جانبدار سرزمین پر مذاکرات
اِس سلسلے میں نئی بات یہ ہے کہ ’ٹائمز‘ کے بقول امریکی حکومت نے طالبان کے اِس رابطہ دفتر کے قیام پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، جو کہ ایک طرح سے طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہے۔ پریس کی رپورٹوں کے مطابق واشنگٹن حکومت کا اصرار یہ تھا کہ یہ دفتر پاکستان کے دائرہء اثر سے دور واقع ہو۔ جب سے یہ پتہ چلا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کا قیام برسوں تک پاکستانی دارالحکومت کے قریب رہا ہے، امریکہ کی نظر میں پاکستان مزید کوئی قابل اعتماد ساتھی نہیں رہا۔
کابل میں یہ خبریں کسی کے لیے بھی باعث حیرت نہیں۔ افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان جانان موسیٰ زئی کو یقین ہے:’’طالبان کو تسلیم کیے بغیر امن مذاکرات ممکن نہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت گزشتہ چند برسوں سے طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت پر اصرار کر رہی ہے:’’ہم باغیوں کے قائدین کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سے باہر طالبان کا دفتر ہمیشہ سے ہمارا مطالبہ رہا ہے۔‘‘
امریکی حکمت عملی میں انقلابی تبدیلی
ابھی تک امریکی حکومت کی جانب سے علی الاعلان اس بات کا اظہار نہیں کیا گیا کہ وہ قطر میں طالبان کے دفتر کے قیام کے حق میں ہے۔ اگر درحقیقت رواں سال کے اواخر میں اِس طرح کا کوئی رابطہ دفتر قطر میں قائم ہو گیا تو اِس کا مطلب مغربی دُنیا کی حکمتِ عملی میں ایک انقلابی تبدیلی ہو گا۔ اِس طرح طالبان کو ایک مذاکراتی ساتھی کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔
جرمنی کے شہر ڈوئیزبرگ کی یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سیاسیات یوخن ہپلر کہتے ہیں کہ امریکہ طالبان سے متعلق اپنی پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لیے تیار ہو چکا ہے:’’امریکی حکومت وقت کے ساتھ ساتھ جان چکی ہے کہ افغانستان میں جنگ فوجی اعتبار سے جیتنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں یہی امکان باقی رہ جاتا ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی دستوں کے انخلاء کے سال 2014ء تک اِس مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے۔‘‘ ہپلر کہتے ہیں کہ ایسے کسی حل کے لیے واشنگٹن کو طالبان کی ضرورت ہے۔
طالبان تحریک انتشار کی شکار
آیا طالبان درحقیقت امریکیوں کو مراعات دینے پر تیار ہوں گے، اِس حوالے سے ماہر سیاسیات ہپلر شک و شبے کا اظہار کرتے ہیں۔ طالبان افغانستان یا پاکستان سے باہر کسی اور جگہ اپنے کسی ممکنہ دفتر کے قیام کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سال مئی میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا، ’ہم نصف افغانستان کو کنٹرول کر رہے ہیں، ہمیں کسی تیسرے ملک میں دفتر کی کیا ضرورت ہے‘۔ افغانستان میں امریکی مراکز کے خلاف تازہ دہشت پسندانہ حملوں کے بعد مجاہد نے ایک بار پھر کہا کہ ’طالبان کا امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں‘۔ مجاہد کے مطابق طالبان کی ’اسلامی امارات افغانستان‘ پہلے کی طرح اب بھی امریکہ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے فوجی افغانستان سے باہر نکال لے۔
بہت سے ماہرین طالبان کے اِس بے لچک رویے کو ایک سیاسی چال سے تعبیر کرتے ہیں۔ افغان امور کے ماہر شاہ حسین مرتضوی کے خیال میں چند ایک طالبان گروپ اِس طرح کے بیانات کے ذریعے اپنی مذاکراتی پوزیشن کو مستحکم بنانا چاہتےہیں:’’طالبان ایک عرصے سے کوئی ایسا واحد گروپ نہیں رہے، جس کا قیادتی ڈھانچہ واضح ہو۔ یہ بات بھی غیر واضح ہے کہ طالبان کے قائد ملا عمر کو مزید کتنا اثر و رسوخ حاصل ہے۔‘‘ امریکہ طالبان کو اپنا ساتھی بنانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم عمل دہشت گرد گروپوں کو افغانستان میں سیاسی طور پر تنہا کیا جا سکے۔ تاہم مرتضوی کے مطابق امریکہ کو ٹھیک طریقے سے پہ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ بات کس سے کرے اور طالبان کی صفوں میں کس گروپ کا پلہ زیادہ بھاری ہے۔