افغانستان کے لیے امدادی بجٹ ڈیڑھ بلین ڈالر کم، اقوام متحدہ
5 جون 2023
اقوام متحدہ اور اس کے انسانی بنیادوں پر مدد کرنے والے مختلف ذیلی اداروں نے افغانستان کو سال رواں کے دوران دی جانے والی امداد کے مجموعی بجٹ پر نظر ثانی کر کے اس میں تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کی کمی کر دی ہے۔
اشتہار
عالمی ادارے کے انسانی بنیادوں پر امداد کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ عالمی ادارے کے اسی سال لگائے گئے گزشتہ اندازوں میں سال 2023ء کے دوران ہندوکش کی اس ریاست کو مجموعی طور پر 4.6 بلین ڈالر کے برابر امداد دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
اب لیکن اس سالانہ مالیاتی منصوبے پر دوبارہ غور کرتے ہوئے اس میں تقریباﹰ 1.4 بلین ڈالر کی کمی کر دی گئی ہے۔ یوں افغانستان کو رواں برس اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی طرف سے انسانی بنیادوں پر اب کُل 3.2 بلین ڈالر مالیت کی امداد دی جائے گی۔
عالمی ادارے کے انسانی بنیادوں پر امدادی امور کے لیے رابطہ کاری کے دفتر OCHA کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بجٹ پلان پر نئے سرے سے غور کرنا ہندوکش کی اس ریاست میں امدادی سرگرمیوں کے لیے بالکل بدلی ہوئی فضا اور طالبان انتظامیہ کی طرف سے امدادی شعبے میں خواتین کے کام کرنے پر لگائی گئی پابندیوں کے باعث ناگزیر ہو گیا تھا۔
افغانستان میں حکمران طالبان کی طرف سے کئی مرتبہ ایسے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں، جن کے تحت ملک میں اقوام متحدہ کے مختلف اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے لیے مصروف عمل مقامی خواتین کارکنوں کے کام کرنے پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔
ان پابندیوں کی وجہ سے اس انتہائی قدامت پسند مسلم اکثریتی ملک میں بہت سی امدادی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے وہاں کام کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
او سی ایچ اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''طالبان انتظامیہ نے افغان خواتین کے اقوام متحدہ اور کئی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے پر جو تازہ پابندیاں لگائی ہیں، ان سے وہ پہلے سے پیچیدہ حالات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں، جن میں افغان عوام کی مدد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق افغانستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے، جہاں انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کے حوالے سے بدترین بحرانی حالات پائے جاتے ہیں۔ افغانستان میں دو تہائی سے زیادہ ملکی آبادی کو زندہ رہنے کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
کئی امدادی اداروں کے مطابق عشروں کی خانہ جنگی سے تباہ حال افغانستان کے بارے میں یہ خدشہ بھی ہے کہ وہاں طالبان کی طرف سے تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں خواتین پر لگائی گئی پابندیوں کے سبب انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد آئندہ اور بھی کم ہو جائے گی۔
عالمی ادارے کے جاری کردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نظر ثانی شدہ بجٹ کے مطابق 2023ء کے آخر تک افغانستان کو انسانی بنیادوں پر 3.2 بلین ڈالر مالیت کی جو امداد مہیا کی جائے گی، اس میں سے کتنی امداد کے لیے مالی وسائل غیر ملکی ڈونر مہیا کریں گے۔
م م / ش ر (روئٹرز)
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔