1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد مستعفی

19 اکتوبر 2021

 امریکی وزیر خارجہ کے مطابق افغانستان کے لیے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد اس ہفتے اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل نے افغانستان سے امریکا کے انخلا کی تحقیقات بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

USA Sondergesandter für Afghanistan Zalmay Khalilzad
تصویر: Rod Lamkey/CNP/MediaPunch/imago images

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے 18 اکتوبر پیر کے روز بتایا کہ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد اسی ہفتے مستعفی ہو رہے ہیں اور اب ان کے نائب تھامس ویسٹ ان کا عہدہ سنبھالیں گے۔ خلیل زاد اس عہدے پر گزشتہ تین برسوں سے بھی زیادہ عرصے سے فائز تھے، جنہوں نے ٹرمپ اور بائیڈن دونوں کی انتظامیہ میں کام کیا۔

ان پر اس بات کے لیے شدید نکتہ چینی بھی ہوئی کہ انہوں نے ٹرمپ کی صدارت کے دوران شروع ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان پر جس قدر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا اتنا دباؤ نہیں ڈالا۔ لیکن امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے خدمات کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا، ''امریکی عوام کے لیے ان کی کئی دہائیوں پر محیط خدمات کے لیے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔''

زلمے خلیل زاد کئی برسوں تک افغانستان اور اقوام متحدہ کے لیے امریکا کے سفیر رہے۔ اس ماہ کے اوائل میں انخلا کے بعد پہلی بار امریکی حکام نے دوحہ میں طالبان قیادت سے بات چیت کی تھی اور اس بات چیت میں بھی خلیل زاد کو نہیں شامل کیا گیا تھا۔ اب انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا ہے۔

بعض موجودہ اور سابق امریکی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ زلمے خلیل زاد حالیہ برسوں میں ہونے والی واشنگٹن کی ایک بڑی سفارتی ناکامی کا عوامی چہرہ بن چکے ہیں۔

افغانستان سے انخلا کی تفتیش شروع

اس دوران امریکی محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل نے پیر کے روز کانگریس کے نام اپنے ایک مکتوب میں انکشاف کیا ہے کہ وہ افغانستان سے افراتفری پر مبنی امریکی انخلا کے بارے میں تفتیش کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔

محکمے کی قائم مقام انسپکٹر جنرل ڈیانا شا کی جانب سے بھیجے گئے اس خط میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس جائزے میں امیگرنٹ ویزا کے خصوصی پروگرام، افغانوں کو امریکا میں پناہ گزین کا درجہ دینے اور ان کی آبادکاری کے ساتھ ہی کابل کے امریکی سفارت خانے سے ہنگامی انخلاء جیسے موضوعات شامل ہیں۔

تصویر: Reuters/O. Sobhani

گزشتہ اگست میں جب طالبان نے امریکا کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تو کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ صدر اشرف غنی کی حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ جائے گی۔  طالبان نے بڑی سرعت سے کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔

امریکا میں حزب اختلاف کی جماعت ریپبلیکن پارٹی نے جس انداز سے افغانستان سے انخلا ہوا اور بیس برس کی فوجی کارروائیوں کے بعد جس طرح پورا نظام آنا ًفاناً تباہ ہو گیا، اس حوالے سے بائیڈن انتظامیہ پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔

روس میں ہونے والی بات چیت میں امریکا کا شامل نہ ہونے کا فیصلہ

امریکی وزات خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان سے متعلق اس ہفتے ماسکو میں ہونے والی بین الاقوامی سطح کی بات چیت میں امریکا بعض لاجیسٹک وجوہات کے سبب شامل نہیں ہو گا۔  ماسکو میں یہ بات چیت بیس اکتوبر بدھ کے روز ہونے والی ہے۔ اس میں چین، پاکستان، بھارت اور طالبان سمیت روس کے حکام بھی حصہ لے رہے ہیں۔

روسی سفیر ضمیر قبولوف کا کہنا تھا کہ اس بات چیت کا مقصد افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات پر ایک مشترکہ موقف اختیار کرنا ہے۔ تاہم امریکی ترجمان نے کہا، ''ہم ماسکو مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔ دیگر فریقین پر مشتمل سہ فریقی بات چیت موثر ہے، اور یہ تعمیری فورم ہے۔ ہم اس فورم میں آگے بڑھنے کے منتظر ہیں، لیکن ہم اس ہفتے حصہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اس طرح کی بات چیت موثر ثابت ہوئی ہے، ''لیکن ہمارے لیے لایسٹیکل سطح پر اس میں حصہ لینا کافی مشکل ہے۔'' ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکا اس عمل کا حامی ہے تو انہوں نے کہا، ''جی ہم حمایت کرتے ہیں۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز) 

      

طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی

01:57

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں