افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر جرمن امداد بھی معطل
28 دسمبر 2022
کئی دیگر ممالک کی طرح جرمنی کی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی افغانستان کی انسانی بنیادوں پر امداد کا سلسلہ روک دیا ہے۔ ایسا افغان طالبان کی طرف سے ان تنظیموں کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی لگائے جانے کے بعد کیا گیا۔
چوبیس دسمبر کے اس اعلان کے بعد متعدد مغربی ممالک کی بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی این جی اوز نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں روک دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے تباہ شدہ ملک افغانستان میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی خواتین کارکن آئندہ بھی اپنے امدادی فرائض انجام دیتی رہیں۔
اس سلسلے میں اب جرمن این جی اوز نے بھی ہندوکش کی اس ریاست میں انسانی بنیادوں پر اپنی طرف سے امداد کا سلسلہ روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جرمن حکومت بھی یہ منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ وہ بھی اپنی طرف سے افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی معطل کر دے۔
کابل میں طالبان کی انتظامیہ نے غیر ملکی این جی اوز کی خواتین کارکنوں پر جو پابندی لگائی، اس پر عالمی سطح پر تاحال شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
اشتہار
ترقیاتی امداد کی وفاقی جرمن وزیر سوینیا شُلسے نے بدھ اٹھائیس دسمبر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ''افغانستان میں غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے خواتین کارکنوں کی بھرتی اور ان سے کام لینے پر پابندی لگا کر طالبان نے افغان عوام کو دی جانے والی امداد کو غیر ذمے دارانہ طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘‘
سوینیا شُلسے کے مطابق، ''اپنی خواتین کارکنوں پر لگائی جانے والی پابندی کے باعث غیر حکومتی تنظیمیں بہت سے علاقوں میں افغانستان کی نصف آبادی کے لیے اپنا کام جاری رکھ ہی نہیں سکتیں۔‘‘
وفاقی جرمن وزیر برائے ترقیاتی امداد شُلسے نے کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے عائد کردہ اس پابندی کے بعد پیدا شدہ صورت حال بالکل نئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت اور عالمی بینک مل کر افغانستان کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ فنڈ کےشراکت داروں کو دعوت دیں گے تاکہ اس بارے میں غور کیا جا سکے کہ افغانستان کے لیے ریلیف کی کوششوں کو اس نئی صورت حال میں مربوط کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بننے کے دہانے پر ہے۔ گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دنیا بھر نے افغانستان کی امداد بند کر دی تھی۔ افغانستان کے حالیہ بحران سے متعلق چند حقائق اس پکچر گیلری میں
تصویر: Ali Khara/REUTERS
تئیس ملین افغان بھوک کا شکار
عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ان میں نو ملین قحط کے بہت بہت قریب ہیں۔
ملک کی آبادی کا قریب بیس فیصد خشک سالی کا شکار ہے۔ اس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور ان کی آمدنی کا 85 فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Rahmat Alizadah/Xinhua/imago
اندرونی نقل مکانی
پینتیس لاکھ افغان شہری تشدد، خشک سالی اور دیگر آفتوں کے باعث اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ صرف گزشتہ برس ہی سات لاکھ افغان شہریوں نے اپنا گھر چھوڑا۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
غربت میں اضافہ
اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے وسط تک اس ملک کی 97 فیصد آبادی غربت کا شکار ہو سکتی ہے۔ طالبان کےا قتدار سے قبل نصف آبادی غربت کا شکار تھی۔ 2020 میں فی کس آمدنی 508 ڈالر تھی۔ اس سال فی کس آمدنی 350 ڈالر تک گر سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق کم از کم دو ارب ڈالر کی امداد کے ذریعے ملکی آبادی کو شدید غربت سے غربت کی عالمی طے شدہ سطح پر تک لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP
بین الاقوامی امداد
طالبان کے اقتدار سے قبل ملکی آمدنی کا چالیس فیصد بین الاقوامی امداد سے حاصل ہوتا تھا۔ اس امداد کے ذریعے حکومت کے اخراجات کا 75 فیصد پورا کیا جاتا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق سالانہ ترقیاتی امداد، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد معطل کر دی گئی، سن 2019 میں 4.2 ارب ڈالر تھی۔ یہ امداد سن 2011 میں 6.7 ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
خواتین کا کردار
خواتین کی ملازمت پر پابندی جیسا کہ طالبان نے کیا ہے وہ معیشت کو 600 ملین ڈالر سے لے کر ایک ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
تصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance
حالیہ امداد
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انسانی امداد کا ایک چھوٹا سا حصہ ابھی بھی اس ملک کو دیا جارہا ہے۔ 2021 میں افغانستان کو 1.72 ارب ڈالر کی امداد ملی۔ ب ج، ا ا (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
جرمن وزیر خارجہ کی طرف سے بھی مذمت
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی افغانستان میں غیر ملکی این جی اوز کی خواتین کارکنوں پر لگائی گئی پابندی کی بھرپور مذمت کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''ہم یہ قبول نہیں کریں گے کہ طالبان افغان خواتین کی تذلیل اور تضحیک کی اپنی کوششوں میں انسانی بنیادوں پر امدا دکی فراہمی کو بھی شطرنج کے مہرے کی طرح استعمال کریں۔‘‘
انالینا بیئربوک کے مطابق، ''انسانی بنیادوں پر ضروری دیکھ بھال اور زندہ رہنے کے لیے ناگزیر نگہداشت کو خطرے میں ڈالتے ہوئے طالبان نہ صرف انسانی بنیادوں پر امدا دکے بنیادی اصولوں کی نفی کر رہے ہیں بلکہ وہ افغانستان کی نصف آبادی سے اس کا ایک اور بنیادی حق بھی چھینتے جا رہے ہیں۔‘‘
افغان ریلیف اور ترقی کے لیے مصروف اداروں کے مابین رابطے کا کام کرنے والی ایجنسی کا نام اے سی بی اے آر (ACBAR) ہے، جو 183 مقامی اور بین الاقوامی امدادی گروپوں اور تنظیموں کا نمائندہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔
اس ایجنسی کے مطابق اس کے رکن بہت سے امدادی گروپ اور تنظیمیں طالبان کی طرف سے خواتین کارکنوں پر لگائی گئی پابندی کے بعد اس ملک میں اپنی سرگرمیاں معطل کر چکے ہیں۔
م م / ش ر (بین نائٹ)
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔