افغانستان کے لیے جرمن فوجیوں میں اضافہ ممکن ہے، گابریئل
21 دسمبر 2017جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے افغانستان کے اچانک دورے کے دوران کہا ہے کہ افغانستان کو مزید جرمن فوجیوں کی ضرورت ہے۔ گابریئل کے مطابق زمینی حقائق کے تناظر میں ایک مناسب تعداد میں جرمن فوجیوں کی افغانستان میں تعیناتی کی تجویز غیر ضروری نہیں ہے اور یہ بات عقل میں آنے والی ہے۔
قصوروار اشرف غنی ہیں، جرمنی بدر ہونے والا افغان مہاجر
ملک بدر کیے گئے افغان مہاجر جرائم میں ملوث تھے، ڈے میزیئر
جرمن فوج کی اپنی صفوں میں انتہاپسند موجود ہیں
جرمنی: دفاعی اخراجات میں اضافہ، سیاسی رائے منقسم
افغانستان کے دارالحکومت میں بیس دسمبر کو زیگمار گابریئل نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے دو طرفہ معاملات پر بات چیت کرنے کے علاوہ یہ بھی واضح کیا کہ برلن حکومت کابل میں اپنے سفارت خانے کو جلد معمول پر لائے گی۔ انہوں نے افغان صدر کو بتایا کہ سفارت خانے کے عملے کے اراکین واپس اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔
کابل میں واقع جرمن سفارت خانے کو رواں برس کے اوائل میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے ایک حملے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ ایمبیسی میں ایک سو افراد پر مشتمل عملہ متعین تھا۔
کابل میں جرمن وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ افغانستان میں جرمن فوجیوں کی اضافی اور نئی تعیناتی کا فیصلہ جرمن پارلیمنٹ میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔ اس وقت افغانستان میں ایک ہزار جرمن فوجی نیٹو کے ریزولیوٹ اسپورٹ مشن کا حصہ ہیں۔
امریکا کی جانب سے نیٹو کے رکن ملکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی عسکری سرگرمیوں کے تناظر میں اپنی فوج میں اضافہ کریں۔
جرمن فوجی افغانستان میں سن 2002 سے متعین ہیں لیکن اُن کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ پندرہ برس قبل افغانستان میں تعینات سب سے زیادہ جرمن فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار تک رہی ہے۔
جرمن فوج مزار شریف میں متعین ہے اور اس کا بنیادی مقصد تربیت اور انفراسٹرکچر کو تعمیر کر کے فعال کرنا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے مختلف اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں کہا کہ اُن کا ملک افغان حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔