ڈی ڈبلیو: طالبان سے مذاکرات کی امریکی کوششیں جاری ہیں لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک سے زائد مرتبہ پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تنقید کر چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ پاکستان پر شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ کیا دونوں ممالک کے مابین تناؤ امن مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟
شاہ محمود قریشی: اس وقت ٹرمپ انتظامیہ میں بھی ایک نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ اگر ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں تو یہ صرف مذاکرات کے بعد سیاسی مفاہمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ افغانستان میں ملک گیر مذاکرات آگے بڑھنے کا ایک بہتر طریقہ ہے۔
اس وقت طالبان، افغانستان، پاکستان، امریکا اور خطے کے قریب سبھی اسٹیک ہولڈرز ایک ہی صفحے پر ہیں۔ پاکستان مذاکرات میں معاونت کی کوشش کر رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ عمل خطے کے لیے ’گیم چینجر‘ ثابت ہو گا۔
ڈی ڈبلیو: گزشتہ برس دہشت گردی سے متعلق عالمی واچ ڈاگ نے پاکستان کو دہشت گردوں کی فنڈنگ نہ روکنے پر اپنی ’گرے لسٹ‘ میں شامل کر لیا تھا۔ پاکستان اس ضمن میں عالمی برادری کو کیوں قائل نہیں کر پا رہا؟
شاہ محمود قریشی: پاکستان نے اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ حال ہی میں ہماری ایک ٹیم آسٹریلیا گئی تھی جہاں انہوں نے واچ ڈاگ کے نمائندوں کو ہماری حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ اب ہمیں ان سے مثبت ردِ عمل ملا ہے۔ امید ہے کہ اب کسی وقت پیرس میں اس معاملے پر گفتگو ہو گی اور پاکستان کو گرے لسٹ سے ہٹا دیا جائے گا۔
ڈی ڈبلیو: لیکن کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جماعت الدعوة کے خلاف کوئی عملی اقدامات نہیں کے۔۔۔
شاہ محمود قریشی: پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے انتہائی سنجیدہ اقدامات کیے ہیں۔ ہم اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں اور ہم انہیں پورا کریں گے۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaگیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpaان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpaطالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Imagesبائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaچھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaجنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpawebچار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpaانیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpaدو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Imagesجنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Imagesاٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaافغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔
تصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images ڈی ڈبلیو: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے حریف ملک بھارت سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا ہوا نہیں، وجہ کیا ہے؟
شاہ محمود قریشی: ہم خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں اور اس کے لیے بھارت کے، جس کے ساتھ ہمارے کئی مسائل طے ہونا باقی ہیں، ساتھ مذاکرات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جب ہماری جماعت اقتدار میں آئی تو ہم نے نئی دہلی کو مذاکرات کی دعوت دی۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر بھارت امن کی جانب ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔
بدقسمتی سے بھارت میں عنقریب انتخابات ہونا ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی عام انتخابات کی تیاریوں میں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس وقت مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔ ہم نے بھارت کو پیش کش کی ہے اور یہ ایک سنجیدہ پیش کش ہے۔ جب بھی وہ تیار ہوں گے، ہم ان سے مذاکرات کریں گے۔
ڈی ڈبلیو: کیا وزیر اعظم عمران خان کی سول حکومت کے پاس ملکی خارجہ پالیسی طے کرنے کا مکمل اختیار ہے؟ سابق ادوار میں یہ معاملہ پاکستان کی طاقتور فوج اور سول حکومتوں کے مابین جھگڑے کا سبب بنتا رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی: ملکی خارجہ پالیسی دفتر خارجہ ہی تیار کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی یقینی طور پر دفتر خارجہ ہی کرتی ہے۔ ہمارا دفتر یہ کام کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد بات یہ ہے کہ ہمیں جو صورت حال درپیش ہے اس کے لیے ہمیں سلامتی سے متعلق ملکی اداروں کی سفارشات درکار ہوتی ہیں۔ ہم ان سے رابطے میں رہتے ہیں، ملکی مفادات کے حوالے سے کھل کر بات ہوتی ہے اور مل کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ش ح / ع ح (انٹرویو: شاہ میر بلوچ)
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaیہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpaستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelovاس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP