ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں حالات اتنے خراب ہیں کہ ملک کے نصف بچے اسکولوں سے محروم ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر نوعمر لڑکیاں ہیں، جنہیں جلدی شادی اور دیگر کئی قسم کے امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Niedringhaus
اشتہار
افغان بچوں کے بارے میں ایک رپورٹ مختلف انسانی ہمدری کی بین الاقوامی تنظیموں نے مرتب کی ہے۔ رپورٹ کو مرتب کرنے والی تنظیموں میں یونیسیف، یو ایس ایڈ اور بین الاقوامی تھنک ٹینک سیموئیل ہال شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان کے بچوں کو پرتشدد حالات کے باوجود، خاندانی و علاقائی تنازعات، غربت، کم عمری کی شادیوں کا سامنا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسکولوں سے محروم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پرتشدد حالات و واقعات میں اتار چڑھاؤ نے اسکولوں کی جبری بندش کے سلسلے کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی علاقوں میں کئی بچوں نے پہلی مرتبہ اسکول میں قدم اُس وقت رکھا جب وہ ٹین ایجر ہو چکے تھے۔
ایسا تاثر عام ہے کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں لاکھوں بچوں کو زندگی میں کبھی کسی اسکول میں قدم رکھنے یا کسی کلاس میں کچھ دیر کے لیے بیٹھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ اسکولوں سے محروم بچوں کی تعداد سینتیس لاکھ کے قریب بنتی ہے اور یہ تعداد سات سے سترہ برس کے درمیان ہے۔ یہ افغانستان کے تمام بچوں کا چوالیس فیصد ہے۔
سن 2002 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسکولوں سے محروم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہےتصویر: NRC/Enayatullah Azad
افغانستان کے وزیر تعلیم میر واعظ بلخی بھی ان اعداد و شمار سے متفق ہیں۔ میر واعظ بلخی نے جہادی تنظیموں طالبان یا اسلامک اسٹیٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ افغانستان میں اسکولوں کی جبری بندش کی کئی وجوہات ہیں۔ بلخی نے اس سے اتفاق کیا کہ انسانی معاشرت میں اہم ترین ترقیاتی عمل بچوں کی تعلیم ہی ہوتی ہے۔
افغان وزیر تعلیم کے مطابق جنگی حالات، غربت اور بیروزگاری کا جراٴت کے ساتھ سامنا کرنے کے لیے تعلیم ہی سب سے اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان کے جنگی حالات سے شدید متاثرہ صوبوں میں پچاسی فیصد کے قریب کم سن بچیاں اسکول نہیں پہنچ پاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایڈل خودر نے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ کاروباری حالات کا جاری رہنا اہم نہیں ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ خودر نے یہ بھی تحریر کیا کہ جب کوئی بچہ اسکول تک نہیں پہنچ پاتا تو اُس کے استحصال یا اُس کی جبری ملازمت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
رواں برس کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ عسکریت پسندوں نے اسکولوں کو جلانا بھی شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پرتشدد حالات نے ایسی ابتری پیدا کر رکھی ہے کہ کئی علاقوں میں اسکولوں کے کھولنے کے امکانات معدوم ہو کر رہ گئے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے مہاجر بچوں کے لیے افغانستان میں اسکول
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے افغان علاقے لمن جانے والے پاکستانی مہاجرین کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول کی تصاویر دیکھیے جو تفصیلات سمیت ایک مقامی صحافی اشتیاق محسود نے ڈی ڈبلیو کو ارسال کی ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
اسکول کا بانی بھی پاکستانی مہاجر
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مہاجر محمد علی شاہ نے ( سفید لباس میں ملبوس ) افغان علاقے لمن میں پاکستانی پناہ گزین بچوں کے لیے ایک ٹینٹ اسکول قائم کیا ہے۔ محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ اسکول اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کا تعلیمی مستقبل بچانے کے لیے قائم کیا گیا۔
تصویر: I. Mahsud
ساڑھے چار سو بچے زیر تعلیم
محمد علی شاہ کے بقول خیموں میں قائم کیے گئے اس اسکول میں شمالی وزیرستان کے قریب ساڑھے چار سو مہاجر بچوں کو چھٹی جماعت تک تعلیم دی جا رہی ہے۔
تصویر: I. Mahsud
ایک خیمے میں تین کلاسیں
اسکول کے بانی کا کہنا ہے کہ جگہ کی کمی کے باعث ایک خیمے میں تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ وسائل نہ ہونے کے سبب ان پناہ گزین بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
تعلیم کا شوق
اسکول میں زیر تعلیم چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ وہ موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے علاقے کی خدمت کر سکیں۔
تصویر: I. Mahsud
’افغان حکومت مدد کرے‘
محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اُنہوں نے افغان حکومت اور اقوام متحدہ سے بچوں کی تعلیم میں معاونت کا مطالبہ بھی کیا۔
تصویر: I. Mahsud
’اسلام آباد اور کابل کے بچوں جیسی تعلیم‘
ایک اور طالب علم رفید خان نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی ویسی ہی تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں، جو اسلام آباد اور کابل کے بچوں کو حاصل ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
کھیل کا میدان بھی ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد کئی قبائلی خاندان ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے تھے، جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں نے خیموں سے باہر کھیل کا میدان بھی بنا رکھا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
اساتذہ بھی مہاجر
اس خیمہ اسکول میں پانچ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ ان تمام اساتذہ کا تعلق بھی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے اور یہ بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔