افغانستان میں کشمش کی پیداوار کو بہتر کرنے کی خاطر افغانستان کی وزارت زراعت اور کچھ امددای تنظیمیں افغان معاشرے کے روایتی ’کشمش خانوں‘ کو جدید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اشتہار
افغان کسان عبدالجلیل مٹی کے بنے اس کمرے میں بیٹھا ہے، جہاں صدیوں سے اس کا خاندان انگوروں کو سُکھانے کا کام رہا ہے۔ مٹی کی یہ روایتی جھونپڑیاں جنھیں ’کشمش خانے‘ بھی کہا جاتا ہے، طویل عرصے سے انگوروں کے بیج نکالنے اور انہیں سکھانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ افغانستان میں مگر اب ان کشمش خانوں کو جدید بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایک وقت تھا جب دنیا بھر میں کشمش کی کل پیداوار کا دس فیصد حصہ افغانستان کا ہوتا تھا لیکن چار دہائیوں سے جاری جنگ اور تنازعات کے باعث اب کشمش کی کل پیداوار میں افغانستان کا حصہ صرف دو سے تین فیصد رہ گیا ہے۔
گلزار نےنیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ کشمش کے ان نئے گھروں میں زیادہ گنجائش ہے اور ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے، انگوروں کو خشک کرنا۔‘‘
واضح رہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں زراعت معیشت کا اہم ترین حصہ ہے اور افغان شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں انگوروں کی ایک سو سے زائد اقسام اگائی جاتی ہیں۔ ان انگوروں کا ذکر افغان شاعری اور محاوروں میں بھی نظر آتا ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کیوں کہ افغانستان میں شراب بنانے اور اس کی فروخت پر پابندی عائد ہے، اس لیے زیادہ تر کسان انگوروں سے کشمش بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس خشک پھل کو ذخیرہ کرنا بھی آسان ہے اور اس کی اچھی قیمت بھی وصول ہوجاتی ہے۔
گزشتہ برس افغانستان میں نو لاکھ ٹن انگوروں کی پیداوار ریکارڈ کی گئی تھی لیکن یہ ملک صرف ایک لاکھ گیارہ ہزار ٹن انگور اورصرف پندرہ ہزار ٹن کشمش درآمد کر پایا تھا۔ سرد خانوں کی کمی اور بین الاقوامی منڈیوں کی سخت شرائط کے باعث افغانستان کے زیادہ تر انگور مقامی بازاروں میں ہی سستے داموں فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ افغانستان کی وزارت برائے زراعت سے وابستہ عبدالصمد کماوی نے اے ایف پی کو بتایا،’’ نئے کشمش خانوں کی مدد سے مقامی مارکیٹوں میں انگور وں کی سپلائی محدود کر دی جائے گی ، کشمش کے معیار کو بہتر بنایا جائے گا اور صحیح قیمت بھی وصول ہو سکے گی۔‘‘ لیکن اس کے باوجود یہ مشکل ہے کہ افغانستان روس، متحدہ عرب امارات، بھارت اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں اپنی درآمدات بڑھا سکے۔ ایک مغربی ملک سے تعلق رکھنے والے تاجر نے اے ایف پی کو بتایا،’’ افغان کاشت کاروں کے لیے یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا اب بھی مشکل ہے۔‘‘
افغانستان کے لال انار بین الاقوامی منڈی کی تلاش میں
افغانستان کے جنوبی حصے کے کاشت کاروں کے مطابق اس برس انار کی فصل بہت اچھی رہی لیکن انہیں خدشہ ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹوں کے باعث انار کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا یا بہت ہی سستے داموں فروخت ہوگا۔
تصویر: Fars
افغانستان کے انار زیادہ تر پاکستان برآمد کیے جاتے ہیں
افغانستان کے انار زیادہ تر پاکستان برآمد کیے جاتے ہیں جہاں افغان کاشت کاروں سے یہ انار انتہائی سستے داموں خریدے جاتے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر کشیدگی کے باعث تجارت میں رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس سال کے آغاز میں پاک افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے اور چمن کے مقام پر پاک افغان سرحدی راستہ بھی بند رہا۔
تصویر: AFP/Getty Images
عالمی منڈیوں تک رسائی
افغان کاشت کاروں کی کوشش ہے کہ اُنہیں افغان حکومت ایران کے راستے سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی دے۔ ایک کاشت کار ظاہر جان کا کہنا ہے،’’افغان حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اچھے داموں انار خریدنے والی نئی منڈیوں کی تلاش میں ہماری مدد کرے۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
انار کی پیداوار میں اضافہ
قندھار چیمبر آف کامرس کے سربراہ حاجی نصراللہ ظاہر کے مطابق اس سال انار کی کاشت میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی افغان اناروں کو برآمد کرنے کی کوشش میں ہیں۔
افغان برآمدات سے متعلق ادارے کے ڈائریکٹر زمان پوپل کا کہنا ہے کہ افغانستان کا انار اس خطّے کا سب سے بہترین انار ہے اور بہت سے ممالک افغان انار کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ افغان حکومت انار کو فضائی طور پر بر آمد کرنے کا بھی سوچ رہی ہے جو کہ مہنگا لیکن انتہائی تیز ذریعہ ہے۔
زراعت افغانستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ملکی آبادی کا ستّر سے اسّی فیصد حصہ زراعت سے منسلک ہے لیکن تیس برس سے زائد عرصے سے جنگ اور تنازعات نے یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جنگ کے باعث افغانستان کی زرخیز زمین بھی متاثر ہوئی ہے۔
افغانستان میں اناراور زعفران کی کاشت کو پوست کی غیر قانونی کاشت کا ایک بہترین نعم البدل تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہرجان کا کہنا ہے،’’ میری تمام کسانوں سے درخواست ہے کہ وہ پوست کے بجائے انار کاشت کریں۔ انار کی کاشت فائدہ مند بھی ہے اورغیر قانونی بھی نہیں۔‘‘ افغانستان میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے باوجود پوست کی کاشت میں کمی نہیں لائی جاسکی ہے۔